
Travel History : (In the name of Allah, The Beneficent, the most Merciful), This is a short Travel History (Travelogue) of Bangalore of Mr. Muhammad Asim Asad Salafi Etawi (Hafizahullah). This short Travel History (Travelogue) article has been written with hir own pen on the top seat of the train while returning from Bangalore on the date of 12 October 2021 at 07:06 pm. So please read this Short Travel History (Travelogue) article in Urdu Language. Now let’s start short Travel History (Travelogue of Bangalore), Travel History, a short Travel History of Bangalore, short Travel History of Molana Aasim, Travel History, Travel History.
رودادِ سفر (بینگلور کا مختصر سفر نامہ)
بقلم: محمد عاصم اسعد
قلم ہاتھ میں ہے،ڈائیری بھی گود میں کھلی رکھی ہے اور ٹرین کی اوپر والی سیٹ پر ٹھیک لائٹ کے نیچے سب سے بیزار بیٹھا ہوا ہوں، ٹرین بڑی تیزی کے ساتھ میری منزل اتر پردیش کی جانب رواں دواں ہے،وادیِ ذہن میں افکار وخیالات کے بے شمار پرندے محوِ گردش ہیں مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ بات کہاں سے شروع کروں؟ دل ہے کہ کہیں اور بھاگا جا رہا ہے،ہر بار بہلا پھسلا کر اسے روکتا ہوں اور پاس بھٹا کر دلاسا دیتا ہوں کہ
دلِ نادان مانا کر ، اسے نہ یاد اتنا کر
نہ حاصل ہو سکے جو تجھ کو ، اس کو بھول جایا کر
مگر وہ ہے کہ میری بات ماننے کو تیار ہی نہیں بلکہ الٹا مجھے جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ
جو حاصل ہو اسے حاصل میں کر بھی لوں تو کیا حاصل
حصولِ امرِ لا حاصل ہی اسعد اصلی حاصل ہے
اس کا یہ جواب سن کر تو میری زبان ہی گنگ ہو جاتی ہے۔ مزید کچھ کہنے کی جرآت کروں بھی تو الفاظ مجھے یوں گھور کر دیکھتے ہیں جیسے میں نے ان کے مالک کی شان میں گستاخی کر دی ہو،اور دل پھر سے بینگلور کی اسی سر زمین کی طرف نکل جاتا ہے جہاں سے میں بڑی منت سماجت کے بعد منا کر اسے لایا تھا یعنی ہمارا چمن کلیۃ الحدیث کہ جہاں ہم نے اپنی زندگی کا تقریباً ڈیڑھ سالہ عرصہ گزارا،جہاں کے اساتذہ سے ہم نے جتنا علم سیکھا اس سے کہیں زیادہ ادب و احترام سیکھا،جہاں پیار و محبت کی کھلی فضا میں ایک مدت تک ہم تازہ سانسیں لیتے رہے،جہاں ہم نے اساتذہ کی شفقتیں پائیں،بڑوں کی محبتیں دیکھیں،ساتھیں کی الفتیں ملیں،جہاں ہم نے چلنا سیکھا،زندگی میں آگے بڑھنا سیکھا اور کھلے آسمانوں میں اڑنا سیکھا،جہاں پر گزرا ایک ایک لمحہ یادگار ہے۔
آج جب اسی کلیہ سے سند فراغت لے کر گھر لوٹ رہا ہوں تو دل حزن ومسرت کی ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے،ایک طرف جہاں پڑھائی مکمل ہونے کی خوشی ہے وہیں دوسری جانب یہ غم بھی کھائے جا رہا ہے کہ اب ہم اس کلیہ کے باشندے نہیں رہے۔مارے غم کے سندِ اعزاز بھی سندِ اخراج معلوم ہو رہی ہے،اوپر سے یہ یادیں ہیں جو پیچھا چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔حالانکہ لوٹ تو میں اکیلا ہی رہا ہوں مگر درحقیقت میرے پیچھے یادوں کی ایک مکمل بارات ہے،ایک ایسا ہجوم جس میں خوشیاں کہیں کھو سی گئی ہیں اور ڈھونڈنے پر بھی دکھائی نہیں دے رہیں۔
کلیہ میں گزرا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا ہے،کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم اتنی جلدی فارغ ہو جائیں گے وقت کب گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ ویسے بھی ہمیں کلیہ میں رہتے ابھی وقت ہی کتنا گزرا۔ ابھی تو ہمیں تھوڑا اور وہاں رہنا تھا،اساتذہ کی شفقت کے سائے تلے کچھ مزید پل گزارنے تھے، ان سے اور استفادہ کرنا تھا،علم وادب کے زیور سے خود کو آراستہ کرنا تھا،ساتھیوں کے ساتھ تھوڑی اور مستیاں کرنی تھیں اور یادوں کی اس جھولی کو یادگار لمحات سے مزید بھرنا تھا۔
مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ اللہ جو چاہتا ہے ہو کر رہتا ہے۔ عین امتحانات کے وقت وبا آئی اور ہم آناً فاناً میں کلیہ سے اس خوشی کے ساتھ رخصت ہوئے کہ اب ہمیں امتحانات نہیں دینا پڑیںگے،مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمارا اصل امتحان تو اب شروع ہونے والا ہے اوراب آگے زندگی جو امتحان لینے والی ہے وہ کلیہ کے امتحان سے کہیں زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔
پھر ہوا بھی یہی یعنی ہمیں باقی کی تقریباً ڈیڑھ سال کی تعلیم مع امتحانات آن لائن ہی مکمل کرنا پڑی۔ کلیہ سے نکلتے وقت اگر ہمیں ذرا بھی شک ہوتا کہ یہ ہماری یہاں پڑھائی کا آخری دن ہے تو اللہ کی قسم ہم کبھی کلیہ سے نکلنے پر خوش نہ ہوتے کیونکہ اس کے بعد تو ہم جیسے کلیہ دیکھنے کو ترس ہی گئے تھے اس کے اساتذہ کی آوازیں سننے کو ترستے تھے،خصوصاً شیخ عبد الوکیل مدنی صاحب کے الفاظ “ما زلتم هنا” آواز بن کر کانوں میں گونجتے تھے،شیخ نور الحسن مدنی کے درس میں ہونے والا مناقشہ یاد آتا تھا، شیخ عبد الحسیب صاحب کا پروقار چہرا بار بار نظروں کے سامنے آتا تھا۔ شیخ طارق کا صبر وتحمل ہمیں اپنی اور بلاتا تھا تو دوسری طرف شیخ شفیق صاحب کی طنز ومزاح سے بھرپور کلاس یاد آتی اور چہرے پر ایک مسکان اور دل میں ایک گدگدی چھوڑ جاتی تھی۔
پس اسی انتظار میں دن گزر رہے تھے کہ ہمیں کب پھر سے کلیہ کی زیارت کا موقع نصیب ہوگا یہاں تک کہ کچھ دن قبل کلیہ کی جانب سے صادر ہونے والے اس اعلان سے دل کو تسلی ملی اور امید بر آئی کہ ہمیں 9 اکتوبر کو کلیہ میں حاضر ہونا ہے لیکن پڑھنے نہیں بلکہ سند فراغت اور اپنا باقی ماندہ سامان لینے۔
پس میں نے رختِ سفر باندھا اور 6 تاریخ کو بینگلور کے لیے نکل گیا، چونکہ اٹاوہ سے بینگلور تک کوئی ڈائریکٹ ٹرین نہیں ہے اس لیے آگرہ تک بس کا سفر کیا اور پھر رات گیارہ بجے کرناٹک ایکسپریس میں سوار ہو گیا۔ تقریباً دو دن کا طویل سفر طے کر کے تھکا ماندا بینگلور پہنچا۔ مگر اپنے کلیۃ الحدیث پر جیسے ہی پہلی نظر پڑی،سفر کی ساری تھکاوٹ کافور ہو گئی۔ سارے غم وا ہو گئے اور ساری مشکلیں آسان ہی ہو گئیں۔ وہی در و دیوار وہی کھڑکیاں،وہی کرسیاں اور وہی ہماری کلاس۔ ہم جیسے چھوڑ کر گئے تھے سب بالکل ویسا ہی تھا۔ لائبریری شکوہ کناں تھی کہ ہم اسے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے۔ کلاس کے وائٹ بورڈز غصے سے منھ پھلائے کھڑے تھے۔ پانی پینے والی ٹونٹیوں کے آنسو بہہ بہہ کر خشک ہو چکے تھے،کلیہ کا کونہ کونہ مانو ہمیں حسرت سے تک رہا تھا۔
تھوڑا آگے بڑھا اور پرانے احباب پر نظر پڑی تو دل مچل کر خود بخود ان سے گلے لگ گیا۔ سارے یار بھی بالکل ویسے ہی تھے جیسا ہم نے انہیں چھوڑا تھا،وہی ہنسی مذاق،وہی شیطانیاں اور نادانیاں، لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہم اتنے عرصے بعد مل رہے ہیں،میں زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ
مدتوں بعد ملاقات ہوئی ہے پھر بھیایسا لگتا ہے ابھی کل ہی ملے تھے ہم تم
پھر ہم نے مل کر پرانی یادیں تازہ کیں۔ باقی ماندہ حسرتوں کی تکمیل کی اور ادھورہ خواہشات کو پورا کیا۔ اگلے روز یعنی 9 تاریخ کو بروز سنیچر ہمارا آخری پروگرام تھا جو الحمد للہ بحسنِ خوبی انجام پایا،صدر محترم شيخ أنيس الرحمن مدنی رہے،نظامت کی ذمہ داری شیخ طارق مدنی حفظہ اللہ نے سنبھالی۔ ہمارے رفیق درس وی متین عمری نذیری نے خوبصورت تلاوتِ قرآن سے بزم کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے شیخ منصور مدنی حفظہ اللہ نے مختصر مگر جامع انداز میں کلیہ کا تعارف بیان کیا اور پھر مدینہ سے شیخ دکتور وصی اللہ عباس مدنی (جو الحمد للہ کلیہ کے ایک عظیم رکن ہیں) کا لائو خطاب ہونا تھا مگر بعض اسباب کے پیش نظر ان کا خطاب رکارڈ کر کے چلایا گیا جس کا دورانیہ تقریباً آدھے گھنٹے کا تھا پھر شیخ ظفر الحسن صاحب کا بھی اسی طرح 20 منٹ کا خطاب ہوا اس کے بعد ناچیز کو تاثراتی کلمات پیش کرنے اور اپنی ایک نظم پڑھنے کا بھی موقع ملا۔
اخیر میں صدر مجلس شیخ انس عمری مدنی صاحب کا تقریباً 17 منٹ کا خطاب ہوا آپ نے ہم طلبہ بہت ہی قیمتی نصیحتوں سے نوازا اور ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم کلیہ سے فارغ نہیں ہوئے بلکہ اصل مشغولیت تو اب شروع ہونے والی ہے ساتھ ہی دعوت وتبلیغ کی جو ذمہ داری ہم پر عائد ہے اس کی ادائیگی کی تلقین کی۔ ہمیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کے ساتھ ساتھ حق کے لیے کسی سے نہ ڈرنے پر ابھارا اور ہمیں یہ احساس دلایا کہ اب تک ہم جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ بس ایک دورہ تدریبیہ کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ کیسے پڑھنا ہے لہٰذا کوئی یہ نہ سوچے کہ اب ہم عالم بن گئے تو پڑھنے کی کیا ضرورت۔ بلکہ آپ نے بتایا کہ انسان زندگی بھر طالب علم ہی رہتا تھا اور پھر اخیر میں انعامات کی تقسیم کے ساتھ یہ پروگرام کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
پروگرام کے ختم ہوتے ہی احباب کی وداعی کا سلسہ شروع ہو گیا۔ ہم بجھے دل سے ایک دوسرے سے گلے ملتے اور الوداع کر دیتے۔
اگلا روز یعنی اتوار کا دن ہم نے سیر و سیاحت کا لیے وقف کر دیا۔ سارا دن ہم نے مختلف مقامات کی سیر کی اور اس مختصر سے وقت کو یادگار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس دن بھی بعض احباب رخصت ہوئے۔
اب سوموار کا دن آخری دن تھا جو کہ اکثر سامان کی پیکنگ میں ہی گزر گیا اور پھر آخر کار ہماری بھی جدائی کا وقت آ ہی گیا۔ گو کہ اس سے پہلے بھی ہم کلیہ سے جدا ہوئے تھے مگر اس مرتبہ معاملہ ذرا مختلف تھا کیونکہ اس بار ہم کلیہ کو نہیں بلکہ کلیہ ہمیں رخصت کر رہا تھا۔ پس نمدیدہ آنکھوں اور غمگین دل کے ساتھ میں کلیہ سے رخصت ہوا۔ اور ابھی سامان لے کر ٹرین میں گھر کی اور جا ہی رہا تھا کہ اتنے میں ایک دوست نے کلاس کے گروپ میں مجھ سے پوچھ لیا کہ “(کلیہ میں) کچھ چھوڑ کے آئے کیا”؟
پس یہ سوال سنتے ہی میری آنکھیں لال اور زخمِ دل ہرے ہو گئے اور قلم سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل پڑے کہ “بلکہ سوال یہ پوچھیں کہ کلیہ سے لے کر کیا آئے؟
کیونکہ سب کچھ تو وہیں پر چھوٹ گیا ہے۔
وہ یادیں
وہ ملاقاتیں
وہ قیمتی لمحات
وہ خوبصورت جذبات
اساتذہ کی وہ شفقتیں
بڑوں کی وہ رحمتیں
چھوٹوں کی شیطانیاں
بچوں کی نادانیاں
وہ شناسا لوگ
ان سے وابستہ ہمارے تعلقات
وہ کلیہ
اس کے در و دیوار
وہ کمرے
ان میں قید ہماری یادیں
وہ چائے کے ہوٹل
وہاں میز پر ٹھنڈی ہوتی ہماری چائے
وہ راستے
راستے کے وہ حسیں مناظر
وہ عاشقانہ موسم
اس میں چلنے والی سرد مائل ہوا
وہ برسات
برسات کی وہ ٹھنڈی بوندیں
وہ محترم اساتذہ
ان کے وہ علمی دروس
وہ کلاس رومز
ان میں میز پر رکھی ہماری کتابیں
وہ کاپیاں (نوٹ بکس)
ان میں لکھی ہماری ناقابلِ فراموش داستانیں
وہ لائبریری
لائبریری میں رکھی پرانی ضخیم جلدیں
ان کے صفحات
ان صفحات پر موجود ہمارا احساسِ لمس
ان سے نکلتی وہ بھینی بھینی خوشبو
اور بھی نہ جانے کیا کیا؟
سب کچھ تو چھوٹ ہی گیا،ہم ساتھ لے کر ہی کیا آئے؟
ہاں اگر ہم کچھ ساتھ لائے ہیں تو ہمارے دامن میں کچھ یادوں کا خزانہ ہے۔ کچھ لمحات ہیں۔ کچھ جذبات ہیں اور کچھ قیمتی احساسات ہیں جن کو ہم جھولی میں بھر لائے ورنہ ہمارا سب کچھ تو وہیں رہ گیا بلکہ ان سب چیزوں سے بڑھ کر ہمارا اصل سرمایۂ حیات وموت یعنی ہماری دل وجان بھی وہیں رہ گئی۔ اب بھلا اس کے بعد بھی کچھ چھوڑنے کو باقی بچتا ہے کیا؟ کیا اس کے بعد بھی کسی چیز کے کھو جانے کا غم یا خدشہ لاحق رہتا ہے؟
کلیہ سے جدائی اور اپنا اتنا کچھ کھو دینے کے بعد اب میری حالت ایسی ہے کہ بکھرے بالوں کے ساتھ فقیر کی مانند تنہا سیٹ پر بیٹھا ہوں اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہوں کہ محبت کے چمن اور باغباں کو چھوڑ آیا ہوں میں بارِ جسم کے آیا ہوں جاں کو چھوڑ آیا ہوں سبھی کچھ رکھ لیا تھا ڈھونڈھ کر کے بیگ میں اپنے نہ جانے کیسے وہ قلبِ نہاں کو چھوڑ آیا ہوں فقط اک کلیہ تو ہے جو مجھ سے دور ہے لیکن مجھے لگتا ہے میں سارے جہاں کو چھوڑ آیا ہوں
Please do not share any spam links in this blog.