جب موسم بہار بھی موسم خزاں معلوم ہو۔
جب زندگی سے دل اُچاٹ ہو جائے۔
جب آئینہ اپنی شفافیت کے باوجود گرد آلود لگنے لگے۔
جب حیات واہیات لگنے لگے۔
جب ہر خوبصورت منظر آنکھوں میں چبھنے لگے۔
جب حزن وملال کے کالے بادل دل ناتواں پر چھا جائیں۔
جب آسمان سے برستا پانی بھی آپ کے آنسوں کو نہ چھپا سکے۔
جب آنکھ سے اشکوں کے بجائے لہو نکلے۔
جب ہر منظر دھندلا سا دکھائی دینے لگے۔
جب اپنے بھی پرائے لگنے لگیں۔
جب محبت و اعتماد جیسے الفاظ پرانی کہانیاں لگنے لگیں۔
جب حقیقت سے اعتبار اٹھ جائے۔
جب لوگوں کا اصلی چہرہ آپ کے سامنے آ جائے۔
جب وفا کا نام سن کر آپ کا دل جلتا ہو۔
جب لوگوں کی مسکراہٹ فریب لگنے لگے۔
جب سورج کی روشنی بھی آپ کے اندر کی تاریکی کو نہ مٹا سکے۔
جب چاند کی چاندنی بھی آپ کی توجہ کو مائل نہ کر سکے۔
جب فلک کے لا تعداد ستارے آپ کے دل کو زینت نہ بخش سکیں۔
جب شب کی تاریکی آپ کے قلب میں ہمیشہ کے لیے ڈیرا ڈال لے۔
جب بجلی کی کڑک آپ کو ڈرا نہ سکے۔
جب بادلوں کی فلک شگاف گرج آپ کے اندر ارتعاش نہ پیدا کر سکے۔
جب چین وسکون کے تمام مترادفات اور ہم معنی الفاظ آپ کی بے چینی میں اضافے کا سبب بننے لگیں۔
جب زخم ناسور بن جائے۔
جب زخم کے لیے نمک اور دوا ایک جیسے ہو جائیں۔
جب گناہوں کی دیمک آپ کو اندر سے کھوکھلا کر دے۔
جب خود اپنا وجود اٹھانا دوبھر ہو جائے۔
جب ہر سانس کے ساتھ آپ اندر ہی اندر مر رہے ہوں۔
جب آپ اپنا حال دل اپنے قریبی سے کہنے سے ڈر رہے ہوں۔
جب لوگوں کا ہجوم محض ڈرامہ لگنے لگے۔
جب برداشت کی انتہاء ہو جائے۔
جب درد والم کے قفس میں دم گھٹنے والا ہو۔
جب برسوں سے کھولتا ہوا اندر کا جوالا مکھی پھٹنے والا ہو۔
جب فکر کے پرندے کے پر کاٹ لیے جائیں۔
جب معانی سے ان کا پیرہن چھین لیے جائے۔
جب الفاظ کے اندر سے ان کی روح نکال لی جائے۔
جب خیالات کا گھلا گھونٹ دیا جائے۔
جب گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئی آپ کو موت کی گھنٹی لگنے لگے۔
جب جاگتی آنکھوں سے ہر سو آپ کو رسی اور پنکھا نظر آنے لگے۔
جب محلے کی سڑک پر بھی آپ کو پٹری پر سرپٹ دوڑتی ٹرین دکھنے لگے۔
جب خواب میں آپ کو اونچی اونچی عمارتیں نظر آنے لگیں۔
جب ٹرین کی سیٹی آپ کو پرکشش لگنے لگے۔
جب شب وروز میں آپ کے لیے کوئی فرق باقی نہ رہے۔
اور جب زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود آپ پر تنگ ہو جائے۔
۔
۔
۔
تب مکمل طور پر مایوس ہونے سے پہلے
تب کوئی بھی نا مناسب قدم اٹھانے سے پہلے
تب اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے سے پہلے
تب زندگی ہار جانے سے پہلے
ایک بار یہ ضرور سوچ لینا کہ
اب بھی کوئی ہے جو تمہاری تمام تر خطاؤں کے باوجود تمہارا ہے۔
کوئی ہے جس کو اب بھی تمہاری فکر ہے۔
کوئی ہے جو اب بھی تمہاری بھلائی چاہتا ہے۔
کوئی ہے جو اب بھی تمہارا خیر خواہ ہے۔
کوئی ہے جو اب بھی تمہیں اپنانے کے لیے تیار ہے۔
کوئی ہے جو تمہارے تمام گناہوں کو معاف کرنے کے لیے تیار ہے۔
کوئی ہے جس کا دروازہ اب بھی تمہارے لیے کھلا ہے۔
۔
۔
۔
مگر اس کے لیے پہلے تمہیں ایک چھوٹا سا کام کرنا ہوگا۔
اس سے پہلے کہ وہ تمہیں بلائے ، تمہیں خود اس کی طرف پلٹنا ہوگا۔
اور یہ کام تمہیں اس کا دروازہ بند ہونے سے پہلے ہی کرنا ہے۔
ہاں! مگر یہ یاد رکھنا کہ اس کے در پر بھکاری بن کر جانا ، کیونکہ شہنشاہی اس کو پسند نہیں۔
اور کاسہ کے بجائے بس دو آنسو آنکھوں میں ساتھ لیتے جانا،یہ تمہارے لیے بھلے ہی پانی کے قطروں سے زیادہ بے وقعت ہوں مگر اس کے در پر ان کی اچھی قیمت ملتی ہے۔
اور جھولی میں تھوڑی سی ندامت بھی ڈال لینا ، کیونکہ اس کے بغیر اس کے در کا دروازہ نہیں کھلتا۔
بس یہ دونوں چیزیں لے کر سیدھا اس کے دروازے پر چلے جانا ، وہاں تمہیں کوئی دربان نہیں ملے گا اور نہ ہی کسی سے اجازت لینے کی ضرورت پڑے گی۔
یہ دونوں چیزیں ہی تمہارے لیے اجازت نامے کا کام کریں گی۔
پھر اس کے در پر پہنچ کر بغیر کسی اگر مگر کے ، چپ چاپ اپنے آپ کو اس کے سامنے سرنڈر کر دینا؛ کیونکہ اس کے یہاں کوئی بہانہ نہیں چلتا۔
اوہ اگر چہ وہ سب کچھ جانتا ہے مگر اس کے در پر پیشانی کو رکھ کر اپنا تمام حال دل اس سے کہہ دینا ، کیونکہ اسے یہ چیز بہت پسند ہے۔
ساتھ یہ بھی کہہ دینا
"اے اللہ! یہ فقیر بندہ تیرے در پر اپنی جھولی پھیلائے تجھ سے تیرے کرم کی بھیک مانگ رہا ہے،اور اس کے دامن میں حسرت و ندامت اور چند آنسوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے"۔
اور جی بھر کر اس کے سامنے رو لینا۔
جو دل چاہے کہہ لینا۔
جو باتیں کسی کو نہیں بتا پاتے وہ تمام باتیں اسے بتا دینا۔
وہ بہت بڑا رازداں بھی ہے۔
اور بہت بڑا رحمٰن بھی ہے۔
تم دیکھنا کہ وہ کس طرح تمہیں گناہوں سے پاک و صاف کر دے گا۔
تمہاری مرادوں سے تمہاری جھولی بھر دے گا۔
وہ اپنی رحمت سے دنیا کو تم پر پہلے سے بھی زیادہ کشادہ کر دے گا۔
وہ غم والم کی کالی گھٹاؤں کو ہٹا دے گا۔
وہ پل بھر میں تمہاری تمام پریشانیوں کو ختم کر دے گا۔
وہ تمہیں زندگی کا ایک معنی اور مقصد دے گا۔
تم مانگتے جاؤ گے اور وہ دیتا جائے گے۔
لینے کے لیے تمہاری جھولی کم پڑ جائے گی مگر اس کی رحمت کم نہیں پڑے گی۔
تم مانگتے مانگتے تھک جاؤ گے مگر وہ دیتے ہوئے نہیں تھکے گا۔
پھر جب تم اس کے در سے واپس لوٹوگے تو دنیا تو وہی ہوگی مگر پوری بدلی ہوئی ملے گی۔
کیونکہ تمہارے دل کی دنیا بدل چکی ہوگی
تمہارا زوایۂ نظر تبدیل ہو چکا ہوگا۔
پھر تمہیں ہر طرف رسی اور پنکھا نہیں بلکہ اللہ کی عظمت کے مظاہر نظر آئیں گے۔
خواب میں عالی شان عمارتیں تو نظر آئیں گی مگر وہ دنیا کی نہیں بلکہ جنت کی عمارتیں ہوں گی جن کا تم تصور کر رہے ہوگے۔
تب تمہیں زندگی کی حقیقت کا علم ہوگا۔
اور اصل لذت سے آشنائی ہوگی۔
۔
۔
۔
مگر یاد رکھنا!
کہیں پھر سے رب کو ناراض نہ کر بیٹھنا۔
کہیں پھر سے اس کے غضب کو دعوت نہ دے دینا۔
کیونکہ اس ذات با برکت کو ناراض کرکے کوئی خوش نہ رہ پایا ہے اور نہ کبھی رہ پائے گا۔
اس کا وہی حال ہوتا ہے جو پہلے تمہارا تھا۔
اور اگر کوئی رب کو ناراض کر کے بھی خوش ہے تب تو یہ مزید خطرے کی گھنٹی ہے۔
اور اگر کبھی غلطی کو جائے اور رب کو ناراض کر بیٹھو
تو فوراً سے پیشتر اس کے در پر اس کے بلانے سے پہلے ہی چلے جانا ، جیسے اس سے پہلے گئے تھے۔
اور پھر سے انہی آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا جنہیں اس سے پہلے رکھا تھا۔
اور اگر پھر غلطی ہو جائے تو پھر اس کی طرف پلٹ جانا۔
اس کی طرف لوٹنے کا یہ سلسلہ تب تک جاری رکھنا جب تک وہ تمہیں خود اپنے پاس نہ بلا لے ، کیونکہ تم مانگتے مانگتے تھک جاؤ گے مگر وہ کبھی دیتے ہوئے نہیں تھکے گا۔
اور آخری بات یہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہارے گناہ خواہ کتنے بھی ہو جائیں کبھی اس کی رحمت و مغفرت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے۔
بقلم: م۔ع۔اسعد
متعلم: جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
#دل #قلب #اللہ #زندگی #موت #life #heart
0 टिप्पणियाँ
Please don't share spam link in this blog.