My dear friends, this post is very important for you because in this we are giving you very important information about Jamaat-e-Islamic Hind and about its bani, read it thoroughly and understand it. This article has been taken from the book Jamaat-e-Islami Ko Pehtaan authored by Hakim Ajmal Khan Sahab (Hafizahullah) and it has been written by Hafiz Abdul Tawwab Muhammadi Sahab (Hafizahullah) and the description of this book has been given by Janab Maulana Muhammad Asam As'ad Salafi Sahab Etawi (Hafizahullah).
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
ملک گیر سفر کرنے کے بعد مجھے اس چیز کا شدت سے احساس ہوا کہ اہلِ حدیث کی ایک بڑی تعداد جماعتِ اسلامی سے متاثر ہے اور اس خوشی میں مبتلا ہے کہ جماعتِ اسلامی اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں ہے، حالانکہ جماعتِ اسلامی کے افکار و نظریات اور دینی تفہیم و تشریح علماء سلف سے قطعاً مختلف ہے، اس میں تجدد،اعتزال، تخفیفِ حدیث، اہانتِ صحابہ، مصلحت پرستی اور تشیع پسندی کے جراثیم موجود ہیں۔اس ضرورت نے راقم الحروف کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اس موضوع پر ایک ایسی کتاب مرتب کرے جو اکابر علماء کرام کی تحقیقات پر مشتمل ہو،لہٰذا یہ کتاب مختلف علماء کرام کے تحقیقی مقالات و مضامین پر مشتمل ہے۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ حقیر کاوش دین کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوگی۔ (حکیم اجمل خان)
حدیثِ نبوی پر شکوک اور شبہات
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سے خطاب
مسلمانوں کا اجتماعی عقیدہ ابتداء سے یہی چلا آ رہا ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ حدیث نبوی بھی حجتِ شرعی ہے۔ آخری دور میں مولانا مودودی نے قلم اٹھایا اور آپ نے بڑی سچائی سے کام لیتے ہوئے ایک موقع پر علم حدیث کو واجب العمل تسلیم کیا. [تفہیمات:316] مگر ساتھ ہی جب میدانِ تحقیق میں آئے تو حدیث کے متعلق دو شبہات ایسے پیدا کئے جن کو بخیالِ خود لاینحل سمجھ کر شائع کیا۔
پہلا شبہ : اسماء الرجال کی حیثیت سے کیا،لکھتے ہیں:”محدثین کرام کی خدمات مسلم،یہ بھی مسلم کہ نقدِ حدیث کے لئے جو مواد انہوں نے فراہم کیا وہ صدرِ اول کے اخبار و آثار کی تحقیق میں بہت کار ہے،کلام اس میں نہیں بلکہ صرف اس امر میں ہے کہ کلیۃً ان پر اعتماد کرنا کہاں تک درست ہے وہ بہر حال تھے تو انسان ہی،انسانی علم کے لئے جو حدیں فطرتاً اللہ نے مقرر کر رکھی ہیں ان سے آگے تو وہ نہیں جا سکتے تھے،انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے۔ [تفہیمات:319]
موصوف کے شبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی راوی کے متعلق کسی جانب یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ ایسا ہی تھا جیسا ہم اس کو سمجھتے ہیں۔
یوں تو ہر شخص کو اچھا اور برا کہنے والے موجود ہوتے ہیں،تو کیا ایسی صورت میں کوئی دوسرا شخص فیصلہ کرکے صحیح رائے قائم کر سکتا ہے یا نہیں،اس فیصلہ کی وجوہات کیا ہیں؟ انھیں وجوہات سے راویانِ حدیث کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے،جس کے لئے محدثینِ کرام نے اصول مقرر کئے ہیں جو کہ کتاب و سنت سے ہی مستنبط ہیں۔
دوسرا شبہ : موصوف نے اسماء الرجال کے بعد لکھا ہے:”دوسری ایک چیز سلسلۂ اسناد ہے،محدثین نے ایک ایک حدیث کے متعلق یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر راوی جس شخص سے روایت لیتا ہے آیا وہ اس کا ہم عصر تھا تو اس سے ملا یا نہیں،اور ملا تھا تو آیا یہ خاص حدیث خود سنی یا کسی اور سے سن لی اور اس کا حوالہ نہیں دیا،ان سب چیزوں کی تحقیق انہوں نے اس حد تک کی جس حد تک انسان کر سکتے تھے،مگر لازم نہیں کہ ہر ہر روایت کی تحقیق میں یہ امور ان کو ٹھیک ٹھیک ہی معلوم ہو گئے ہوں،بہت ممکن ہے کہ جس روایت کو وہ متصل السند قرار دے رہے ہوں وہ منقطع ہو،اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکا ہو کہ بیچ میں کوئی ایسا مجہول الحال راوی چھوٹ گیا ہو جو ثقہ نہ تھا۔۔۔۔۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے امور ہیں جن کی بناء پر جرح و تعدیل کے حکم کو کلیتاً صحیح نہیں سمجھا جا سکتا“ [تفہیمات:323]
مولانا نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ شرعی مقدمات کی ہیں،ان میں شہادتوں کا نصاب بھی قرآن شریف نے مقرر کیا ہے اور اس پر عمل کرنے کا حکم بھی دیا ہے،انھیں نصوصِ قرآنیہ کی بناء پر محدثین نے قواعدِ روایت کا استنباط کیا ہے۔
نیز محدیثین نے معاصرین کی روایت کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ ان کی ملاقات ہو چکی ہو،اس کا ثبوت ان کو کسی روایت میں مل جائے تو وہ ساری روایتوں کے لئے کافی ہوتا ہے،ثبوتِ ملاقات کے لئے ان کے اصطلاحی الفاظ ”اخبرنا،حدثنا“ وغیرہ ہوتے ہیںپس آپ کا یہ کہنا کہ”اسناد اور جرح و تعدیل کے علم کو کلیۃً صحیح نہیں سمجھا جا سکتا“ یہ معنی رکھتا ہے کہ دنیا کی عدالتیں چاہے طاغوتی ہوں یا شرعی ناقابلِ اعتبار ہیں،ان کے فیصلے صحیح سمجھے جانے کے لائق نہیں۔
اعتزال : مولانا کا مسلک ”اعتدال“ نہیں بلکہ ”اعتزال“ (باعتبار لفظ) ہے،جس طرح مرزا قادیانی اپنی تحریرات میں کسی فن کی اصطلاحات کے پابند نہیں رہتے اسی طرح مودودی صاحب بھی اصطلاحاتِ سابقہ کے پابند نہیں رہتے،موصوف لکھتے ہیں:-”محدثین کرام کا خاص موضوع اخبار و آثار کی تحقیق بلحاظِ روایت کرنا تھا اس لئے ان پر اخباری نقطۂ نظر غالب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔ رہا فقیہانہ نقطۂ نظر،تو وہ ان کے موضوعِ خاص سے ایک حد تک غیر متعلق تھا اس لیے وہ اکثر ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک روایت کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے حالانکہ معنی کے لحاظ سے وہ زیادہ اعتبار کے قابل نہیں اور ایک دوسری روایت کو وہ قلیل الاعتبار قرار دے گئے ہیں حالانکہ معنیً وہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔محدثانہ نقطۂ نظر بکثرت مواقع پر فقیہانہ نقطۂ نظر سے ٹکرا گیا ہے اور محدثین کرام صحیح احادیث سے بھی احکام و استنباط میں وہ توازن اور اعتدال ملحوظ نہ رکھ سکے جو فقہاء و مجتہدین نے رکھا ہے۔[تفہیمات:24]
یہ اقتباس ہم کو دو باتوں کی اطلاع دیتا ہے،ایک یہ کہ فقہ اور حدیث الگ الگ دو چیزیں ہیں اس کی فرع یہ ہے کہ فقیہانہ نظر اور محدثانہ نظر بھی الگ الگ یے،اس موقع پر موصوف کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی منظور نظر فقہ کی جامع مانع تعریف کر دیتے،ورنہ اگر ان کی نظر میں وہی تعریف صحیح ہے جو فقہاء نے خود کی ہوئی ہے،تو ہم اسے محدثانہ روش کے خلاف نہیں پاتے۔ ”توضیح“ میں ہے:”هو العلم بالأحكام الشرعية العلمية من أدلتها التفصيلية “یعنی *جو مسائل قرآن و حدیث سے استنباط کئے جائیں،ان کو جاننا علمِ فقہ ہے* ،اس تعریف کے مطابق آئیے ہم صحیح بخاری سے ایک دو مثالیں پیش کرتے ہیں،”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کی زرہ گروی تھی،اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ تقریباً بیس بائیس جگہ لائے ہیں،اگر ان کی نظر صرف اسناد پر ہوتی تو ایک دفعہ روایت کر دینا کافی تھا۔ ہاں اعتدال کا مسلک چھوٹ نہ جائے اس لئے میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ محدثین میں ایسے حضرات بھی ہیں جن کی اصل غرض روایات جمع کرنا ہی ہے فقیہانہ استنباط ان کے مقصد کے علاوہ ہے مگر اجنبی اور غیر نہیں۔
آپ نے اسی اقتباس میں یہ فقرہ بھی لکھ دیا ہے:-”ایک روایت کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے حالانکہ معنی کے لحاظ سے وہ زیادہ اعتبار کے قابل نہیں“آپ کی رفعِ تکلیف کے لئے میں خود ہی ایک حدیث پیش کئے دیتا ہوں جس کو بعض فقہاء نے خلافِ قیاس کہہ کر نظر انداز کیا ہے یعنی ”حدیثِ مصرات“،محدثین اس کے جواب میں کہتے ہیں:”یہ قیاسِ اصطلاح نہیں ہے بلکہ آپ کی ذاتی رائے ہے جو ایک معنی سے حدیث کا مقابلہ ہے“،نیز محدثین سندِ حدیث کے ذریعہ سے متنِ حدیث کو لیکر گویا دربارِ رسالت میں پہنچ جاتے ہیں،اس اعتبار سے وہ گویا رسالت کی زبانِ مبارک سے الفاظِ حدیث سن لیتے ہیں،اس لئے ان کو کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ ہمارا فہم یا قیاس،متنِ حدیث کے مخالف ہے یا موافق؟ وہ زبان اور دل کے اتفاق سے کہتے ہیں”سمعنا و اطعنا“
مولانا مودودی کا مسلک
فرماتے ہیں:”اس بحث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ جس طرح حدیث کو بالکلیہ رد کرنے والے غلطی پر ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی سے محفوظ نہیں جنہوں نے حدیث سے استفادہ کرنے میں صرف روایات پر ہی اعتماد کیا،مسلکِ حق ان دونوں کے درمیان ہے اور یہ وہی مسلک ہے جسے ائمہ مجتہدین نے اختیار کیا ہے،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ میں آپ بکثرت ایسے مسائل دیکھتے ہیں جو مرسل اور متصل اور منقطع احادیث پر مبنی ہیں،یا جن میں ایک قوی الاسناد حدیث کو چھوڑ کر ایک ضعیف الاسناد حدیث کو قبول کیا گیا ہے،یا جن میں احادیث کچھ کہتی ہیں اور امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کچھ کہتے ہیں۔۔۔۔الخ [تفہیمات:323]
جواب: اصل بات پر مولانا نے غور نہیں کیا یا ان کو سہو ہو گیا،اصل بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مرسل حدیث کو ضعیف نہیں کہتے بلکہ انقطاع کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلل کو راوی کے کمالِ اعتماد سے تعبیر کرتے ہیں،جبکہ دیگر محدثین کے نزدیک یہ شبہ باقی رہتا ہے کہ صحابی کے سوا کوئی اور راوی نہ چھوٹ گیا ہو۔
مولانا کے لئے ایک قابلِ غور نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ”محدثین نے جن راویوں کی نسبت اچھی یا بری رائے لکھی ہیں ان کی محنت قابلِ شکریہ ہے لیکن بشریت سے وہ بھی خالی نہ تھے،ممکن ہے ان راویوں میں ان سے غلطی ہو گئی ہو“۔ انتھیٰ
اس بناء پر میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس صورت میں آپ محدثین کی کھلی رائے کے متعلق غلطی کا امکان بتاتے ہیں اگر وہ محدث کسی راوی کا نام ہی نہ لے تو (غلطی کا) یہ امکان ڈبل ہو جائے گا یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ محدثین مرسل کو صحیح نہیں مانتے،یہ اختلاف دراصل ایک اصولی اختلاف ہے۔
مولانا مودودی نے کھلے لفظوں میں حجیتِ حدیث سے انکار نہیں کیا،نہ ہم ان کو کھلے منکرِ حدیث سمجھتے ہیں لیکن چونکہ ان کے شبہات سے منکرین حدیث کو تقویت پہنچتی ہے اور یہ قوت شدید انکار کا موجب ہوتی ہے جیسا کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے،مولانا لکھتے ہیں:”معاذ اللہ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ یہ لوگ کسی حدیث کو حدیثِ صحیح جان کر اس سے انحراف کرتے تھے،نہیں،بلکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ ان کے نزدیک صحتِ حدیث کا مدار صرف اسناد پر نہ تھا،بلکہ اسناد کے علاوہ ایک کسوٹی بھی تھی جس پر وہ احادیث کو پرکھتے تھے،اور جس حدیث کے متعلق ان کو اطمینان ہو جاتا تھا کہ یہ حقیقت سے اقرب ہے اسی کو قبول کر لیتے تھے،خواہ وہ خالص محدثانہ نقطۂ نظر سے مرجوح ہی کیوں نہ ہو۔[تفہیمات:323]
اس اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ محدثین اور مجتہدین کے مسلک الگ الگ ہیں،اسی کی مزید تشریح مندرجہ ذیل اقتباس میں ملتی ہے۔
یہ دوسری کسوٹی کون سی ہے؟ جس شخص کو اللہ تفقہ کی نعمت سے سرفراز فرماتا ہے اس کے اندر قرآن اور سیرت رسول کے غائر مطالعہ سے ایک خاص ذوق پیدا ہو جاتا ہے۔۔۔۔اس کے بعد جب جزئیات اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کا ذوق اسے بتا دیتا ہے کہ کون سی چیز اسلام کے مزاج اور اس کی طبیعت سے مناسبت رکھتی ہے اور کون سی نہیں رکھتی،روایات پر جب وہ نظر ڈالتا ہے تو ان میں بھی یہی کسوٹی رد و قبول کا معیار بن جاتی ہے۔۔۔۔۔یہی نہیں بلکہ جن مسائل میں اس کو قرآن و سنت سے کوئی چیز نہیں ملتی،ان میں بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فلاں مسئلہ پیش آتا تو آپ اس کا فیصلہ یوں فرماتے۔۔۔۔۔اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد انسان اسناد کا زیادہ محتاج نہیں رہتا،وہ اسناد سے مدد ضرور لیتا ہے مگر اس کے فیصلہ کا مدار اس پر نہیں ہوتا۔۔۔الخ[تفہیمات:325]
اصول حدیث کی کتابوں میں کوئی اصل اور قاعدہ اس معنی کا نہیں ملتا،اگر ملتا ہے تو بتائیں۔
ائمہ اربعہ کا اختلاف
نیز مولانا کا جولانِ قلم ملاحظہ کیجئے کہ مذکورہ بالا ہر دو اقتباسوں کا رد خود ہی فرماتے ہیں،لکھتے ہیں:-”یہ چیز چونکہ سراسر ذوقی ہے اور کسی ضابطہ کے تحت نہیں آتی،نہ آ سکتی ہے،اس لئے اس میں اختلاف کی گنجائش پہلے بھی تھی اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔۔۔۔پھر یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ ایک شخص کا ذوق لامحالہ دوسرے شخص کے ذوق سے کلیۃً مطابق ہی ہو۔۔الخ[تفہیمات:324]
ہم نے جو کہا کہ یہ اقتباس پہلے دو اقتباسوں کا رد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجتہدین کے اختلافِ مذاہب کا فیصلہ کسی طرح نہیں ہو سکتا،کیونکہ وہ ان کے اپنے اختلافِ ذوق پر مبنی ہے،اس لیے نہ کوئی حنفی شافعی کو اور نہ شافعی حنفی کو کہہ سکتا ہے کہ تمہارا فلاں مسئلہ غلط ہے،کیونکہ وہ جواب میں کہے گا کہ میرے امام کا ذوقِ سلیم یہی کہتا ہے۔
آگے مولانا فرماتے ہیں:”پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر مجتہد کا ذوق ہر مسئلہ میں صواب ہی کو پہنچ جائے۔۔۔اعلی سے اعلی درجہ کا مجتہد بھی غلطی کر سکتا ہے۔۔۔۔غرض یہ کہ تمام ائمہ بالاجماع کہتے ہیں کہ جس شخص پر کسی مسئلہ میں سنتِ رسول روشن ہو جائے اس کے لئے پھر کسی دوسرے شخص کا قول لینا حرام ہے،خواہ وہ کیسے ہی بڑے مرتبہ کا شخص ہو۔[تفہیمات:326]
ہم آپ کے پہلے اقتباسوں میں پڑھ چکے ہیں کہ فقہاء اور محدثین میں مسلک کا اختلاف تھا۔۔۔۔اس موقع پر میں یہ پوچھتا ہوں کہ چاروں مجتہدین کا ذوق بھی آپ نے فرما دیا کہ الگ الگ تھا،اور یہ بھی فرما دیا کہ ان کے ہر ایک مسلک کا صحیح ہونا بھی ضروری نہیں تھا اس لئے کہ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے مسائل کو سنتِ مطہرہ پر جانچ کر قبول کیا کرو،پس میں پوچھتا ہوں کہ مولانا وہ سنتِ مطہرہ کی کسوٹی ہم تک کس طریقہ سے پہنچے گی؟ اسناد کے ذریعے یا مجتہدین کے ذووقِ سلیم کے ذریعے سے؟ مجتہدین کے ذوقِ سلیم کو تو آپ سنتِ مطہرہ کا محتاج مانتے ہیں لیکن سنتِ مطہرہ کیا چیز ہے اور ہمارے پاس اس کے آنے کا ذریعہ کیا ہے۔
مختصر یہ کہ آپ کا اور ہمارا اس امر پر تو اتفاق ہو گیا کہ آپ مسائلِ فقہ کو محتاج الی القرآن و السنہ مانتے ہیں مگر اس میں اختلاف ہے کہ احادیث کا ذریعۂ علم ہمارے نزدیک صرف اسناد ہے اور آپ کے نزدیک مجتہدانہ ذوق بھی ذریعۂ علم ہے،اگر میں کہوں کہ آپ خود ہی اپنے سابقہ دعوے کی تردید اس اقتباس میں فرما چکے ہیں تو غالباً غلط نہ ہوگا۔
آپ کا اور ہمارا دوسرا اختلاف اس امر میں ہے کہ آپ ایک طرف احادیث پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہیںمگر دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ ان پر پورا اعتماد نہیں۔
مولانا کا مخصوص عقیدہ
لکھتے ہیں:”قرآن مجید ہدایت کے لئے کافی ہے۔۔۔۔مگر اس علم سے فائدہ اٹھانے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک یہ کہ طالب علم استفادہ کی خاص نیت رکھتا ہو اور ان مبادیات سے واقف ہو جو قرآن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں،دوسری یہ کہ ایک ماہرِ فن آستان موجود ہو۔۔۔۔۔کتاب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی غرض سے بھیجا گیا تھا کہ آپ اس ماہرِ فن کی ضرورت کو پورا کریں۔۔۔الخ[تفہیمات:238]
اس میں مولانا کا عقیدہ واضح پور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ حدیث کو تفسیرِ قرآن مانتے ہیں (جزاہ اللہ خیراً) مگر اس اقتباس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن متن ہے مثلِ کافیہ کے،اور احادیثِ نبویہ اس کی تفسیر ہیں مثلِ شرحِ جامی کے،بالکل سچ ہے مگر اب بھی بہت کچھ مخفی ہے،اور وہ یہ کہ احادیثِ نبویہ صرف قرآن کی تفسیر ہی نہیں بلکہ بعض احکامات میں فی نفسہ مستقل طور پر کسی نئے حکم کا اضافہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور کرتی بھی ہیں،مختصر یہ کہ متن متحمل ہو تو شرح اس کو کھول سکتی ہے،غیر جنس کو شرح داخل نہیں کر سکتی،فافھم لعلہ دقیق۔ مثلاً: قرآنی آیت *وأخواتكم من الرضاعة* پر حدیثِ رسول *يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب* کا اضافہ اور *السارق و السارقة فاقطعوا أيديهما* پر حدیثِ رجم کا اضافہ۔
سنت پر عمل سے انحراف
موصوف فرماتے ہیں:”میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو غلط،دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں جو بالعموم آپ حضرات(فقہاء ومحدثین) کے یہاں رائج ہیں،آپ کا یہ خیال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑی داڑھی رکھتے تھے،اتنی ہی بڑی داڑھی رکھنا سنتِ رسول یا اسوہ رسول ہے یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ آپ عاداتِ رسول کو بعینہ وہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء مبعوث کئے جاتے رہے ہیں،مگر میرے نزدیک صرف یہی نہیں کی یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کی اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور ایک خطرناک ”تحریف دین“ ہے،جس سے نہایت برے نتائج پہلے بھی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہونے کا خطرہ ہے۔[ترجمان القرآن ج:26 ص:274]مولانا کا یہ مسلک دراصل حنفی مسلک ہے،ان کے یہاں افعال نبوی دو قسم کے ہوتے ہیں؛سنن ہدیٰ اور سنن زوائد۔ سننِ زوائد وہ ہیں جو بنیت عبادت نہیں بلکہ بنیتِ عادت کے گئے ہوں،مثلا جلسۂ استراحت وغیرہ،جبکہ محدثین کے نزدیک یہ سب سنن ہدیٰ ہیں،آیتِ کریمہ ﴿قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني…﴾ اپنے معنیٰ میں وسیع ہونے کی وجہ سے ہر قسم کے افعالِ نبویہ کو شامل ہے اور صحابہ کرام کی روش بھی یہی تھی کہ وہ حتی الامکان کسی نبوی فعل کو نہیں چھوڑتے تھے۔
تقلید و عدمِ تقلید
مولانا لکھتے ہیں:”اسلام میں دراصل تقلید ماسوائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کی نہیں ہے۔۔۔۔الخ“ (ترجمان القرآن ماہ رمضان و شوال63ھ،ص:86)
تقلید کے جو معنی علماء اصول کی اصطلاح میں ہیں ان معنی سے کوئی رسول کا مقلد نہیں ہو سکتا،اس لئے کہ تقلید،دلیل سے بے علمی کا نام ہے تو جو شخص رسول علیہ السلام کی بات سن کر مانے اس کو اصل دلیل کا علم حاصل ہو چکا وہ مقلد کیسے ہوا؟
مولانا مودودی کی تعبیرات قرآن و حدیث کی روشنی میں
حضرت مولانا حافظ محمد گوندھلوی
*مسلمانوں میں گروہ بندی*
*اسلامی جماعت کا نام*
اسلام نے سوائے اسلام کے کسی اور چیز کو مسلمان کہلانے یا بننے کے لئے مرکزی چیز قرار نہیں دیا ۔۔۔۔یہاں تک کہ ہجرت و نصرت کی بناء پر بھی ایسی جماعت نہیں بنائی جا سکی جو اسلام کی قائم مقام ہو۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ اسلامی عقیدہ ہی مرکزی چیز قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔
اب کوئی گروہ اگر کسی خصوصیت کو لیکر اٹھتا ہے ۔۔۔تو اس صورت میں عام نام سوائے منفی معنی کے کچھ مفہوم نہیں رکھتا۔۔۔۔پس جو گروہ اپنی جماعت کا نام ”اسلامی جماعت“ رکھتا ہے وہ دراصل اپنے سوا باقی فرقوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے یعنی ان کی جماعتیں اسلامی جماعت نہیں۔دوسرے فرقوں سے اسلامی جماعت کے نام کی نفی جو ان کے اختیار کردہ نام سے التزاما سمجھی جاتی ہے،ان کی بعض عبارات میں اس کی تصریح بھی موجود ہے جس سے ان کے نزدیک دوسرے فرقوں کی حیثیت اور مقام معلوم ہوتا ہے،ان کے خیال میں ہندوستانی مسلمانوں پر حجت قائم ہو چکی ہے،اب ان کے لیے دو ہی راستے ہیں؛ یا اس تحریک کو قبول کر لیں یا یہودیوں کی طرح رد کر دیں۔ (روئداد جماعت اسلامی:حصہ دوم ،ص:13)
اب ذیل میں اس تحریک کی خصوصیت اور اس کا مقصد انہی کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے،کہتے ہیں:
مسلمانوں میں عموماً جو تحریکیں اٹھتی رہی ہیں اور جو اب چل رہی ہیں پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کر لینا چاہئے ۔ اولاً ان میں یا تو اسلام کے کسی جزء کو یا دنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لیکر بنائے تحریک بنایا گیا ہے لیکن ہم اسلام اور اصل اسلام کو لیکر اٹھ رہے ہیں،اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔ثانیاً ۔۔۔۔۔ہم وہی نظامِ جماعت اختیار کر رہے ہیں جو شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ جماعت کا تھا- (روئداد جماعت اسلامی)
عبادت انسان کی پیدائش کا اصل مقصد ہے،جیسے قرآن مجید نے ذکر کیا ہے اور یہی انبیاء علیہم السلام کی بعثت سے غرض و غایت اور سماوی کتب کے نزول کا بنیادی ہدف ہے،اس لئے اس مسئلہ میں ٹھوکر کھانے سے ایمان و کفر دو متضاد حقیقتوں کو سمجھنے میں غلطی واقع ہوئی ہے۔
حضرت مولانا تحریک کی پہلی فکری صورت متعین کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں*اس نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لئے راہ راست وہی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کی۔۔۔۔۔۔(مسلمان اور موجودگی سیاسی کش مکش:116)
اس عبارت میں طریق اختیار کردہ کے راست پر ہونے یہ دلیل قائم کی ہے کہ یہ طریقہ اللہ کے رسول نے اختیار کیا تھا ، لہٰذا یہ حق ہے ، مگر اس ہر غور نہیں کیا کہ یہ طریقہ کن لوگوں میں اور کن حالات میں اختیار کیا ہے ، اس لئے ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جو طریق آپ نے اختیار کیا تھا وہ ابتدائی دعوت کا ہے جب کفار مخاطب ہوں ، مگر موجودہ حالات میں اصلاحِ حال کی دعوت ہے ، جس میں مخاطب مسلمان ہیں ، ان دونوں صورتوں میں دعوت کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ ﴿وَإِذۡ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوۡمِهِۦ یَـٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُونَنِی وَقَد تَّعۡلَمُونَ أَنِّی رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَیۡكُمۡۖ﴾ [الصف ٥] ترجمہ: مجھے اللہ کا رسول مانتے ہو پھر کیوں تکلیف پہنچاتے ہو۔ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی جماعت میں ہر طرح کے آدمی صالح و غیر صالح داخل تھے ۔۔۔جب کوئی قوم مسلمان ہو تو سب کو بلا امتیاز جماعت میں شریک کرنا چاہئے۔دوسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم قوم غلام ہو تو اس کی آزادی کے لئے پہلے کوشش کرنی چاہئے ۔۔۔کیونکہ تمام فسادات کی جڑ حقیقت میں غلامی ہے۔۔۔سب سے پہلے جو موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو کہا وہ یہی تھاأَنۡ أَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۤ إِسۡرَ ٰۤءِیلَ ١٧﴾ [الشعراء ١٥-١٧] ترجمہ:بھیج ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی گناہگاروں کو جماعت میں شامل رکھا ہے اگر چہ نجاتِ اولیہ کا ان کو مستحق قرار نہیں دیا۔ بلکہ شریعت کے ظاہری احکام میں منافق بھی داخل رہتا ہے حالانکہ آخرت میں آگ کے نچلے طبقے میں ہوگا،مسلمان اس کا وارث ہے اور وہ اس کا وارث ہے،ان کا نکاح نہیں ٹوٹتا،لڑائی میں بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل رہتا ہے،مودودی صاحب نے ان تمام امور کو نظر انداز کر دیا ہے۔
*تحریک کی بنیادی غلطی میں منطقی ربط کو دخل*
*منطقی ربط کی صورت*
کہتے ہیں:اسلام محض منتشر خیالات اور منتشر طریقہ ہائے عمل کا مجموعہ نہیں۔۔۔۔بلکہ باضابطہ نظام ہے جس کی بنیاد چند اصولوں پر رکھی گئی ہے ، اس کے بڑے بڑے ارکان سے لیکر چھوٹے چھوٹے جزئیات تک،ہر چیز کو اس کے بینادی اصولوں کے ساتھ ایک منطقی ربط ہے۔«اسلام کا نظریۂ سیاسی»
دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ دین دراصل حکومت کا نام ہے ، شریعت اس حکومت کا قانون ہے اور عبادت اس کے قانون اور ضابطہ کی پابندی ہے۔(خطبات:217)
اور نماز ، روزہ ، ذکر کے متعلق کہتے ہیں:”یہ ہے اس عبادت کی حقیقت جس کے متعلق لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض نماز ، روزہ اور تسبیح و تہلیل کا نام ہے اور دنیا کے معاملات سے اس کو کچھ سروکار نہیں ، حالانکہ دراصل صوم و صلوٰۃ ، اور حج و زکوٰۃ اور ذکر و تسبیح انسان کو اس بڑی عبادت کے لئے مستعد کروانے والے تمرینات و ٹریننگ کورس ہیں۔(تفہیمات:56)
عبارات بالا سے مندرجہ ذیل امور کا پتہ چلتا ہے (1)تمام امور اسلام میں منطقی ربط ہے۔ (2)اگر منطقی ربط نہ \ہو تو یہ امور منتشر خیالات ہوں گے۔ (3)ربطِ منطقی اس شکلِ مذکور میں منحصر ہے۔ (4)نماز،روزہ،تسبیح و تہلیل دنیوی معاملات کے لئے ٹریننگ کورس ہیں۔ (5)دنیوی معاملات میں احکام کی پابندی بڑی بات ہے۔ (6)شریعت حکومت کے قانون کا نام ہے۔ (7)عبادت اس کے ضابطہ اور قانون کی پابندی کا نام ہے۔ (8)دین حکومت کا نام ہے۔
مولانا نے عبادت کے معنی اطاعت کے لیے ہیں اور اطاعت حکم کی تعمیل کا نام ہے اس لئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حاکمیت اللہ کے ساتھ مختص ہے۔حالانکہ عبادت درحقیقت ”تعظیمِ مخصوص“ کا نام ہے،یعنی جو تعظیم اس خیال پر بجا لائی جائے کہ معظم میرا مشکل کشا یا حاجت روا ہے،اور لغت میں عبادت انتہائی ذلت کو کہتے ہیں،جیسے زمخشری وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے،حافظ ابن قیم وغیرہ نے عبادت کا معنی ”غاية المحبة مع غاية الذل“ کیا ہے یعنی ”انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی تعظیم و عاجزی“
۔پس جو تعظیم اس مذکورہ اعتقاد کی بناء پر ہو وہ عبادت ہے،لہذا طاعت کو عبادت کہنا درست نہیں کیونکہ عبادت اللہ کے ساتھ مختص ہے ﴿أمر ألا تعبدوا إلا اياه﴾ يوسفیعنی اس نے حکم دیا کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو۔اور طاعت غیر کی بھی جائز ہے ﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ أَطِیعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِیعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِی ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ﴾ [النساء ٥٩] یعنی:اے ایمان والو! اللہ کی،رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور امراء کی بھی اطاعت کرو۔
نیز یاد رکھنا چاہئے کہ طاعت اور عبادت میں عام و خاص کی نسبت ہے،یعنی طاعت عام ہے اور عبادت خاص تعظیم کا نام ہے،ہر تعظیم عبادت نہیں،اسی طرح ہر اطاعت عبادت نہیں۔
*عبد اور عابد میں فرق*
عبد کے معنی غلام کے ہیں ، یہ “عبودیت” بمعنی “غلامی” سے ماخوذ ہے،اور “عابد” کے معنی “پرستش کرنے والا” ہے،اور یہ عبادت سے ماخوذ ہے۔
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ ٱلسَّـٰجِدِینَ ٩٨ وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ یَأۡتِیَكَ ٱلۡیَقِینُ ٩٩﴾ [الحجر ٩٧-٩٩] ترجمہ: اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کیجیے اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیے اور موت تک اپنے رب کی عبادت کیجیے۔
پس اس اور جیسی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل انسانی زندگی کا مقصد عبادت ہے اور عبادت نماز،روزہ اور ذکر وغیرہ کا نام ہے۔نیز اسلامی حکومت کا قیام بھی اس لیے ہے کہ عبادت میں سہولت ہو جیسا کہ آیت استخلاف سے معلوم ہوتا ہے،اس کے اخیر میں فرمایا :یعبدوننی (نور) یعنی (اللہ بحسب وعدہ ان کو خلیفہ بنائے گا) وہ میری عبادت کریں گے۔
عبادت اور طاعت اپنے اخروی اثر میں ایک لحاظ سے برابر ہیں یعنی دونوں کے بجا لانے سے فلاح اور دونوں کے چھوڑنے سے خسران ہے،اگر چہ خسران ، خسران میں فرق ہے۔
اور دار دنیا کی عادات میں اکثر جگہ مقصد،دنیا کی اصلاح ہے۔مگر عبادات سے اصل غرض ، اصلاحِ دنیا نہیں بلکہ اصلاحِ آخرت اور رضائے الٰہی ہے۔ہاں یہ ضروری بات ہے کہ عبادت سے دنیا میں ایسے فوائد مرتب ہوتے ہیں جن سے دنیوی امور کی بھی کچھ نہ کچھ اصلاح ہوتی ہے،اگر چہ وہ اصلاح مقصد نہیں۔
*عبادت کی اصلی غرض اور اس کے دوسرے فوائد*
حقیقت میں عبادت اس فطری امر کے اظہار کے لیے ہے جو اللہ نے انسان میں پیدائشی طور ہر رکھ دیا ہے،انسان کی بناوٹ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ اس کا کمالِ روحانی اس کی عبادت سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔عبادت کرنے سے جنت میں دخول کی استعداد اور جہنم سے بچنے کی ایک صفت پیدا ہوتی ہے۔
اس اصل غرض کے علاؤہ عبادت پر جو فوائد مرتب ہوتے ہیں،وہ مندرجہ ذیل ہیں
نماز پڑھنے سے چونکہ دل کو ایسی روشنی عنایت ہوتی ہے جس کی بناء پر انسان گناہوں سے متنفر ہوتا ہے اور شہوت میں اعتدال آتا ہے اور یہ چیز تمدن کے لیے مفید ہے۔
*نماز کے طبی فائدے*
نماز میں نجاست سے پرہیز لازمی ہے اور طہارت (وضو) شرط ہے اس لیے لازمی طور پر اس کا صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔پانچ وقت کی پابندی سے سستی کم ہوتی ہے اور سارے اعضاء کے فضلات تحلیل ہوتے ہیں۔
*اقتصادی فائدہ*
پنچ وقتہ نماز کی پابندی سے جذبات میں اعتدال آتا ہے تو اس کا اقتصادی زندگی پر اچھا اثر پڑتا ہے کیونکہ اقتصادی زندگی پر جذبات کا کم و بیش اثر ضرور پڑتا ہے۔
*سیاسی فائدہ*
اللہ کا شعور،فرض سناشی اور ضبط نفس کا ملکہ پیدا ہوتا ہے،قربانی کی عادت پڑتی ہے۔ یہ امور سیاست میں مفید ہیں۔
*معاشرتی فائدہ*
نماز با جماعت سے ایک دوسرے کی پہچان اور رحمت و شفقت کا پیدا ہونا واقعی امر ہے۔اس سے دوسرے کی حاجات کا احساس ہوتا ہے۔یہ چیزیں معاشرے کو مضبوط کرتی ہیں۔
*مساوات کا سبق*
ایک صف میں بلا امتیاز کھڑے ہونا،امام بننے کے لیے قرآن و حدیث کا زیادہ جاننا وغیرہ،یہ سب امور مساوات کا درس دیتے ہیں۔
مگر ان فوائد میں فرق ہے۔عبادت کے لیے جو دنیوی فائدے ذکر کیے گئے ہیں وہ نماز کی غرض و غایت قرار نہیں دیے جا سکتے،کیونکہ عبادت کی حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ صورت سے ہے۔مثلا نماز کا طبی فائدہ؛”اعضاء کے فضلات کا تحلیل ہونا” عبادت یعنی ”تعظیم مخصوص“ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ تعظیم کی ایک مخصوص صورت کے ساتھ ہے۔اور یہی حال دیگر دنیوی فوائد کا بھی ہے۔
ارکانِ اسلام کے متعلق مولانا کا نظریہ*
فرماتے ہیں: عام طور پر لوگ کہتے رہے ہیں کہ اسلام کے پانچ ارکان؛ کلمۂ توحید و رسالت،نماز،روزہ،حج اور زکات ہیں۔۔۔۔۔ ایک مدت سے یہ غلط فہمی رہی ہے کہ ان ہی چیزوں کا نام اسلام ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے،اس سے مسلمانوں کا طریقہ اور طرزِ عمل پوری طرح بگڑتا گیا ہے۔ (کوثر،9فروری،51 بیانِ مودودی)
مولانا کو یہ محض خیال معلوم ہوتا ہے حالانکہ دینی علم سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا بھی ان امور کے ارکانِ اسلام ہونے کو جانتا ہے جیسا کے بخاری کی معروف حدیث ہے “بنی الاسلام علی خمس۔۔۔”
مودودی صاحب نے ان امور کے ارکانِ اسلام ہونے کا انکار کیوں کیا؟*
کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پوجا پاٹ کے طریقوں کو مذہب کہا جاتا ہے اور اسلام اس معنی میں مذہب نہیں بلکہ ایک انقلابی نظریہ ہے،معاشی اور سیاسی لائحہ عمل ہے۔لہذا اس کے ساتھ محض پوجا پاٹ کو کوئی نسبت نہیں،امور مذکورہ بس ٹریننگ کا کام دیتے ہیں پس ضروری ہے کہ ان امور کو ارکان نہ کہا جائے ورنہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر یہ سمجھنے لگیں گے کہ اول مقصد یہی امور ہیں اور اصل اسلام (جو سیاسی و معاشی لائحہ عمل ہے) کی اہمیت کم ہو جائے گی۔
حالانکہ یہ خیالات خود غلط ہیں۔مقصدِ زندگی عبادت ہے اور عبادت کا اکثر و بیشتر حصہ یہی امور ہیں،باقی اکثر چیزیں خواہ سیاسی ہوں یا معاشی ضرورتِ زندگی سے ہیں نہ کہ مقصدِ زندگی سے۔
اصل مقصد جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا*
یہی ایمان،نماز،روزہ اصل مقصد ہے۔جہاد وغیرہ دنیا کی اصلاح کے لیے ہے تاکہ عبادت میں سہولت ہو۔قرآن مجید میں ہے: وَكُلࣰّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰۚ……….﴾ [النساء ٩٥] یعنی: ہر ایک (مجاہد و غیر مجاہد) سے ہم نے نیکی (جنت) کا وعدہ کیا ہے۔
تجدید احیاءِ دین مودودی صاحب کی نظر میں*
لکھتے ہیں: ”تجدید دراصل نام ہے جاہلیت کے ہجوم سے اسلام کو نکال کر از سرِ چمکا دینا۔“ (تجدید و احیاءِ دین)
دین کی اصلاح کا نام تجدید ہے*
پس دین کی حقیقت سمجھنے کے لیے اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ دین کس چیز سے عبارت ہے اور اس میں کس طرح خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور ان کی اصلاح کس طرح ہوتی ہے؟
معنى التجديد إحياء ما درس من العمل بالكتاب و السنة والعمل بمقتضاها. ( شرح جامي صغير:2/281)یعنی:تجدید کا معنی یہ ہے کہ کتاب و سنت پر عمل کرنے اور ان کے مقتضی پر عمل کرنے میں جو سستی، بے توجہی اور جہالت پائی جاتی ہے اس کو تعلیم اور عمل کے ذریعہ دور کرنا۔
پس تجدید دراصل علمی اور عملی کمزوری کا رفع کرنا،فراموش شدہ بات کو یاد کرانا اور متروک عمل کرنے یا کرانے کی کوشش کرنا ہے۔
تجدید میں کمال و نقصان*
تجدید دراصل ملکۂ اجتہاد اور ملکۂ عمل کا نام ہے جس کا اثر اصلاحِ دین پر ہو۔ظاہر ہے کہ ملکۂ میں تجزی نہیں ہوتی،کمال و نقصان کی گنجائش ہے۔ اس کمال و نقصان میں جیسے علوم کی کمی بیشی کو دخل ہے اسی طرح انسانی جد و جہد کو بھی دخل ہےاور اس کے حلقۂ عمل میں وسعت و تنگی کی گنجائش ہے۔
نبی کا کام*
انبیاء علیہم السلام دراصل اللہ کے احکام کی تبلیغ کے لیے آتے ہیں۔اور اس میں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر فضا سازگار ہو تو حکومت بھی قائم کر لیتے ہیں۔ ورنہ ہر حالت میں کامیاب رخصت ہوتے ہیں خواہ شہید ہی کیوں نہ ہو جائیں۔
یہی حال مجددین کا ہے۔اگر خلافتِ راشدہ کے لیے فضا سازگار ہو تو حکومت کا کام بھی ان سے سر انجام پاتا ہے ورنہ وہ کامیاب رخصت ہوتے ہیں۔
حکومت میں اصلاحی نظام العمل بنانا تو انبیاء علیہم السلام کا کام ہے مگر حکومت پر قابض ہونا ان کے مقاصد میں اصالۃً داخل نہیں۔ اسی طرح مجدد کے فرائض میں حکومت پر قابض ہونا نہیں ۔۔۔۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ حکومت پر قابض ہونا نبوت یا تجدید کے منافی ہے بلکہ یہ مقصد ہے کہ ان کے منصب کے لیے حکومت پر قبضہ لازمی چیز نہیں۔اگر چہ بعض دفعہ امامت اور جماعت کی شکل میں نبوت کا ظہور ہوتا ہے۔
مجدد اور مبتدع میں فرق*
مجدد مردہ سنت (دین کا جو حصہ لوگوں نے چھوڑ دیا ہے) کو زندہ کرتا ہے جبکہ مبتدع دین میں اپنی طرف سے شرعاً غیر معتبر چیز کو استحسان اور قیاس کے ذریعہ داخل کرتا ہے۔ پس ایسا شخص ہرگز مجدد نہیں ہو سکتا۔
مجدد اور امور دین کی اصلاح*
سنت کا احیاء اور بدعت کا ازالہ مجدد کا کام ہے۔
سیاست اور حکومت*
شریعت نے حکومت کے تین مراتب قائم کیے ہیں. 1 : خلافتِ راشدہ ۔ 2 : خلافتِ راشدہ نہ ہو مگر قابل برداشت ہو یعنی امیر کم از کم مسلم ہو۔ 3 : جس میں کھلم کھلا کفر ہو،یہ قابل برداشت نہیں۔
حکومت کا پہلا مرتبہ وہ ہے جس کی بنیاد انتخابِ شرعی پر ہو۔قرآن و حدیث آئین حکومت ہو وغیرہ۔۔دوسرا مرتبہ وہ ہے جس میں انتخاب شرعی طریقہ پر نہ ہو بلکہ حکومت کو خاندانی سمجھ کر امیر کا انتخاب ہو مگر آئین اسلامی ہو، گرچہ اس مرتبہ کے متعلق علماء میں اختلاف ہے مگر راجح قول کی بناء پر یہ قابل برداشت ہے اور اس کی مخالفت انقلابی شکل میں جائز نہیں الا یہ کہ وعظ و نصیحت کی جائے۔
تیسرا درجہ کفر بواح کا ہے کہ جب حاکم کافر ہو تو اس میں انقلابی کوشش کرنا جائز بلکہ بعض حالات میں فرض ہے بشرطیکہ فضا سازگار رہنی چاہیے۔
مودودی صاحب کہتے ہیں*
”اسلامی سیاست کا اولین اصول یہ ہے کہ حکم دینے اور قانون بنانے کے اختیارات تمام انسانوں سے فرداً فرداً اور مجتمعا سلب کرے جائیں۔ قانون ساز اللہ ہے۔کوئی انسان خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو،بذات خود حکم دینے یا منع کرنے کا حقدار نہیں۔(اسلام کا نظریۂ سیاسی:23)
حالانکہ درحقیقت حکم تکوینی اور حکم شرعی اللہ کے ساتھ مختص ہیں۔مگر حکم عقلی میں انسان کو بھی اجازت ہے بشرطیکہ اس مسئلہ میں حکم شرعی موجود نہ ہو اور نہ ہی حکم عقلی شریعت کے متصادم ہو۔اور مولانا نے جن آیات سے استدلال کیا ہے ان میں حکم تکوینی و حکم شرعی مراد ہے۔
حکومتِ الٰہیہ کا قیام*
مودودی صاحب کا خیال ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد حکومتِ الٰہیہ کا قیام ہے۔اس کی بناء اس منطقی ربط پر ہے جو انہوں نے سمجھا ہے۔حالانکہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض دنیا میں رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت میں ثواب کا ہونا بتایا گیا یے۔﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّبِیُّ إِنَّاۤ أَرۡسَلۡنَـٰكَ شَـٰهِدࣰا وَمُبَشِّرࣰا وَنَذِیرࣰا ٤٥ وَدَاعِیًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذۡنِهِۦ وَسِرَاجࣰا مُّنِیرࣰا ٤٦﴾ [الأحزاب ٤٥-٤٨]ترجمہ: اے نبی ہم نے آپ کو گواہی دینے والا،خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔
اس آیت میں رسالت کے پانچ مقاصد بیان کیے گئے ہیں: (1) گواہی دینا۔ (2) خوش خبری دینا۔ (3) ڈرانا۔ (4) اللہ کی طرف بلانا۔ (5) روشنی دینا.
قرآن میں ملک گیری کے کچھ اسباب ذکر کیے گئے ہیں۔کچھ مادی اور کچھ روحانی۔
مادی اسباب*
(1)اتفاق و اتحاد۔ (2)نزاع سے پرہیز۔ (3)سست نہ بننا۔ (4)جم کر لڑنا۔ (5)امیر کی اطاعت۔ (6)مادی اسباب میں مکمل تیاری۔
روحانی اسباب*
(1)تقویٰ۔ (2)صبر۔ (3)استقامت
مودودی صاحب کی دعوت میں تبدیلی*
تقسیم ہند کے بعد جب مولانا بھی پاکستان میں پناہ گیر ہونے پر مجبور ہو گئے۔تو دعوت میں یکایک تبدیلی آ گئی۔سیاسی کشمکش میں جو کچھ کہا تھا اور جس طریقہ کو غیر طریقۂ انبیاء قرار دیا تھا وہ سب حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا۔یعنی جس انتخاب کو شجرِ ممنوعہ قرار دے چکے تھے اسی کے پھل سے اپنے مسلک کی حیات کو وابستہ کر دیا۔
مودودی مسلک
(حضرت حافظ مولانا عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ)
امت مسلمہ اور جماعتِ اسلامی یہ دونوں بظاہر کتنے پیارے نام ہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی نے صحتِ حدیث کی یہ شرط رکھی تھی کہ میری وحی کے موافق ہو اور مودودی نے یہ شرط رکھی کہ میرے نزدیک وہ صحیح ہے جو میرے ذوق کے موافق ہو۔گمراہ فرقے اسی طرح اچھا لیبل لگا کر گمراہی پھیلاتے ہیں۔رافضی ”شیعانِ علی“ کہلاتے ہیں۔ معتزلہ ”اہل العدل و التوحید“ وغیرہ۔
روایت و درایت*
اہلِ سنت کے کسی فرقے کا یہ مذہب نہیں کہ روایت اور درایت کا درجہ مساوی ہے،بلکہ حنفیہ تو ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔جیسا کہ قہقہ اور نبیذ کا مسئلہ۔اور محدثین تو مودودی کے نظریے سے کوسوں دور ہیں۔
مودودی صاحب کی درایت فلسفیانہ عقل ہے،فلسفیانہ عقل کا ایمان بالغیب بہت کمزور ہوتا ہے،وہ اسی کو مانتی ہے جو اس میں سما سکے۔جو اس سے بالاتر ہو اس میں اس کا رجحان دو چیزوں کی طرف ہوتا ہے۔یا سرے سے انکار یا تاویل و تحریف۔
تاریخ اور حدیث کے سلسلے میں نیا طرزِ عمل*
مولانا کا خیال ہے کہ اگر کسی واقعے کی شہادت تاریخ میں نہ ملے،بھلے ہی احادیث میں اس کا ذکر ہو تو وہ غلط ہے،چنانچہ آپ حدیث دجال کے متعلق لکھتے ہیں: کیا تیرہ سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔؟ (ترجمان القرآن:3/28)
پھر لطف یہ کہ خود ہی لکھتے ہیں:دنیا میں زمانہ گزشتہ کے حالات کا کوئی ذخیرہ اتنا مستند نہیں جتنا کہ حدیث کا ذخیرہ مستند ہے۔(تفہیمات:261)
مودودی صاحب کا طرزِ عمل*
مودودی صاحب نے جس انداز سے بحث کی ہے یہ منکرینِ حدیث کا انداز ہے،احادیث کو آپس میں اور قرآن شریف کے ساتھ ٹکرانا،ان میں اختلافات پیدا کر کے ان کی قدر گھٹانا اور پھر ان کی تردید کرنا یہ ان کی عام عادت ہے۔ ان کے بقول لباس وضع قطع شریعت میں داخل نہیں،محدثین نے ان کو شریعت قرار دینے کی غلطی کی ہے۔بلکہ دجال کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کو غلطی پر قرار دے دیا،لکھتے ہیں: ”کانا دجال تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔(رسالہ ترجمان القرآن:3/27)
محدثین اور فقہاء پر حملہ*
مودودی صاحب کا خیال ہے کہ محدثین و فقہاء نے عاداتِ نبویہ کو سنت سمجھ احادیث جمع کر کے غلط کیا کیونکہ یہ کوئی شرعی چیز نہیں جس کی اتباع کے ہم مامور ہیں۔ان کے اصل الفاظ یہ ہیں:”میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو غلط،بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں،جو بالعموم آپ کے ہاں رائج ہیں۔(رسالۂ ترجمان القرآن:مئی جون/سنہ45)
حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لا تجتمع أمتي على الضلالة۔ یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔
داڑھی کی سنت کے سلسلے میں مودی صاحب فرماتے ہیں: مگر میرے نزدیک یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کی اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور سخت قسم کی تحریف دین ہے۔(رسالہ ترجمان القرآن:مئی،جون/سنہ45ء)
مولانا صاحب نے محدثین اور فقہاء کے ظن کو اپنے روز مرہ کی بول چال کا ظن سمجھ کر کس قدر گمراہی پھیلائی ہے کہ کوئی چیز بھی صحیح طریق پر نہیں رہ سکتی۔ یہ سب بے استادی کے نتائج ہیں۔
جماعت اسلامی کا نظریۂ حدیث
(حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجرانولہ)
حدیث اور سنت*
ائمہ اور فقہاء رحمھم اللہ نے حدیث اور سنت کو خاص معانی میں بھی استعمال فرمایا ہے لیکن جہاں وہ اصول اور ادلہ کا ذکر فرماتے ہیں وہ انہیں ہم معنی اور مترادف سمجھتے ہیں۔*
سنت ائمہ کی نظر میں*
يطلق لفظ السنة على ما جاء منقولا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير۔ (أصول الفقه الحضرمي:257)
یعنی: سنت کا اطلاق ہر اس چیز پر کیا جاتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو خواہ قول ہو یا فعل ہو یا تقریر۔
سنت مولانا اصلاحی کی نظر میں*
آپ فرماتے ہیں:”حدیث تو ہر وہ قول یا فعل یا تقریر ہے جس کی روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ کی جائے،لیکن سنت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ثابت شدہ اور معلوم طریقہ ہے جس پر آپ نے بار بار عمل کیا ہو،جس کی آپ نے محافظت فرمائی ہو،جس کے حضور عام طور پر پابند رہے ہوں“.(ترجمان القرآن/اکتوبرسنہ55/ص37)
مولانا کی یہ تعریف منطقی ہے نہ عرفی۔ تاہم
(1)
مولانا کی نگاہ میں کسی دوسرے مفہوم پر سنت کا اطلاق درست نہیں۔حالانکہ پوری امت اس سے مختلف ہے۔
(2)
دعویٰ ہے کہ اسلام زندگی کے تمام گوشوں میں رہنمائی کرتا ہے،لیکن جناب کی پیش کردہ تعریف کے لحاظ سے تو اس کا دائرۂ کار اس قدر تنگ ہوگا کہ زندگی کے بعض اہم گوشے بھی شاید اس کی رہنمائی سے خالی رہیں،اخبارِ آحاد کے ساتھ معتزلہ کی طرح اگر سوتیلی ماں کا سا سلوک جاری رہا تو اکثر بین الاقوامی مسائل میں ہم اسلام کی رہنمائی سے محروم رہ جائیں گے۔
(3)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور اس پر استمرار ثابت کرنے کے لیے تواتر کا ذخیرہ تو بالکل مختصر ہے۔اگر آحاد پر اعتماد کیا جائے تو مولانا کے نقطۂ نظر سے اثبات الظن بالظن ہوگا اور بصورتِ اول زندگی کے عام گوشوں میں اس کا نتیجہ انکارِ حدیث ہی ہوگا کیونکہ دفاترِ سنت میں جو کچھ ملتا ہے یہ تعریف اس پر صادق نہیں آتی۔
(4)
اس تعریف کے مطابق صومِ یومِ عاشوراء،نمازِ تراویح،دعاءِ استفتاح کے مختلف صیغے یا دوسری عملی سنتیں جن پر استمرار ثابت نہیں۔ اس تعریف میں کیسے شامل ہوں گی
نوٹ: گجرنوالہ سلفی صاحب نے تقریبا 14 وجوہات سے اس کا رد کیا ہے۔لہذا تفصیل کے لیے کتاب کا رجوع کریں
اثباتِ سنت کے طریقے*
سنت کی تعریف کے بعد مولانا نے فرمایا کہ سنت چار طریق سے ثابت ہو سکتی ہے: (1)عملی تواتر۔ (2)اہل مدینہ کا تعامل۔ (3) خلفاء راشدین کا عمل۔ (4)آحاد
احادیث پر گفتگو سے قبل تعاملِ اہلِ مدینہ اور سنتِ خلفاء راشدین کا معاملہ سامنے آتا ہے۔یہ دونوں چیزیں ہم تک اسناد اور روایت کے ذریعہ ہی پہنچیں گی ،جن میں زیادہ تر آحاد ہیں،اس لیے اس کا مقام اخبارِ آحاد سے بھی فروتر ہونا چاہیے،آحاد کی ظنیت اگر شبہات کا سبب بن سکتی ہے تو یہاں بھی ظن ہی ظن ہے۔مرفوع اور صحیح احادیث سے گھبرانا اور تعاملِ اہلِ مدینہ و سنتِ خلفاء راشدین سے استدلال کرنا معقول نہیں معلوم ہوتا۔ فر من المطر و قام تحت المیزاب والا معاملہ ہو جائے گا۔
(1)
مالکیہ اہلِ مدینہ کے عمل کو سنت کہنے کی جرات نہیں کرتے۔
(2)
سنت کے لیے کسی شہر کو معیار قرار دینا معقول بات نہیں۔بلکہ وہ فی نفسہ حجت ہے۔
(3)
کبار صحابہ کا بھی یہی طریقہ تھا کہ سنت مل جانے پر اپنے عمل کو بدل لیتے۔
(4)
اصل مستند چیز سنت ہے،صحابہ کے پاس علم تھا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب یہ حضرات مدینہ میں ہوں تو یہ علم حجت ہو،لیکن جب یہ علم کوفہ یا شام چلا جائے تو اس کی حجیت محلِ نظر ہو جائے۔
(5)
مدینہ میں بھی اہلِ علم باہم اختلاف کرتے تھے،موطا میں امام مالک نے خود ان اختلافات کا ذکر فرمایا۔اس صورت میں بعض اہلِ مدینہ کے ارشادات بعض اہلِ مدینہ پر حجت کیونکر ہوں گے اور سنت کے اثبات کے لیے کیا معیار ہوگا؟.
اہلِ مدینہ اور ترک سنت*
(6)
اہلِ مدینہ بعض اہم سنتوں کو ترک کر چکے تھے۔ مثلا: ا: بغیر ہاتھ باندھے نماز پڑھنا۔ ب:ایک طرف سلام پھیرنا۔ ج:بسم اللہ نہ پڑھنا۔ د: رفع الیدین نہ کرنا۔ د: تکبیرات سری کہنا۔ ھ: دعائے استفتاح نہ پڑھنا وغیرہ۔ حالانکہ سنتِ صحیحہ اس کے خلاف ہے۔
(7)
ایک صدی کے مختلف اثرات کے بعد مولانا اہلِ مدینہ کے عمل کو اس وہم یا ظن کی بناء پر سنت کی اساس قرار دینے ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ماخوذ ہوگا اور سنت صحیحہ سے اس لیے گھبراتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہے حالانکہ عملِ اہلِ مدینہ بھی آحاد سے ہی ثابت ہوتا ہے۔لہذا اوہام و ظنون کو علوم پر ترجیح بالکل معقول نہیں۔ لکھتے ہیں:”اس طریقہ سے معلوم شدہ سنت کو اس علم پر ترجیح دی گئی ہے جو اخبارِ آحاد سے حاصل ہو“۔
(8)
درحقیقت امام مالک خود سنت صحیحہ کو عملِ اہلِ مدینہ سے رد کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
(9)
غیر مدنی صحابہ کے پاس بھی احادیث کے ایسے ذخائر تھے جو اہلِ مدینہ کے پاس نہیں تھے۔اس صورت میں اگر حدیث پر عمل کیا جائے تو اہلِ مدینہ کے عمل کی کیا حیثیت رہی؟ اور اگر اہلِ مدینہ کے عمل کو ترجیح دی جائے تو منکرین سنت نے آخر کیا جرم کیا؟۔
(10)
امام مالک نے مؤطا میں اہل مدینہ کے عمل کا ذکر فرمایا ہے ان کا اپنا انداز ترجیح کی حد تک ہے ،الزام و حجت نہیں۔بلکہ بعض مقامات پر تو یہ تذکرہ صرف اظہارِ واقعہ کے طور پر آیا ہے۔
اہلِ مدینہ کے عمل کے اجزائے ترکیبی*
جمہور ائمہ کا خیال یہی ہے کہ مدینہ کو عمل میں باقی شہروں پر کوئی مرتبہ حاصل نہیں۔۔۔۔۔۔۔اصل چیز سنت ہے،کسی شہر کا عمل تشریع کی بنیاد قرار نہیں پا سکتا۔(مخلصا فقه الإسلام:172)
خبرِ آحاد*
خبر کی دو قسمیں ہیں؛ متواتر اور آحاد ، متواتر کی حجیت پر سب عقلمند متفق ہیں، متواتر کے سوا باقی سب آحاد ہیں، آحاد میں راویوں کی تعداد معین نہیں، خواہ ایک ہو یا دس،بیس۔ اگر خبرِ واحد میں یقین کے قرائن موجود نہ ہوں یا ضعف کے قرائن پائے جائیں تو ایسی خبر سے قطعاً علم حاصل نہیں ہوگا جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے۔ (الرد علی المنطقیین:38)
صدق کے قرائن*
(1)سند صحیح ہو۔ (2)امت نے اسے قبول کیا ہو۔ (3)مصنف نے صحت کا التزام کیا ہو۔ (4)امت نے اس التزام کو درست تسلیم کیا ہو۔ (5)اہل علم نے ان کتب پر اعتماد کیا ہو اور ان کی مختلف ناحیے سے خدمت کی ہو۔ (6)واحد عن واحد ہو اور اس میں شرائطِ صحت پائی جائیں۔ (7)امت نے عملا اس کو قبول کیا ہو۔ (8)روات ثقہ ہوں وغیرہ۔
پس خبرِ واحد میں اگر یہ قرائن پائے جائیں تو اس سے بھی یقین حاصل ہوگا اور اس پر عمل واجب ہوگا۔اور اس وقت حجیت میں حدیث کا وہی مقام ہوگا جو قرآن کا ہے اور اس کے انکار کا ایمان و دیانت پر وہی اثر پڑے گا جو قرآن کے انکار سے پڑتا ہے۔ اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ دیکھیں (الاحکام:1/108,114,118)
متاخرین فقہاء*
امام نے دو اصولوں پر زور دیا ہے۔ 1: دین کامل ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے۔ پس متاخرین فقہاء کے خیال کے مطابق اگر اوہام و ظنون دین پر اس درجہ غالب آ جائیں کہ حق و باطل کے مابین تمیز ناممکن ہو تو حفاظت کا وعدہ کس طرح پورا ہوا۔ کیونکہ “ذکر” کا لفظ کتاب و سنت دونوں پر حاوی ہے۔(الاحکام:123)
2: معلوم ہے کہ خبر واحد میں تمام شبہات سند کی وجہ سے ہیں ،صحابہ کرام نے جب سنا تو اس وقت نہ تو سند تھی نہ کوئی شبہ،گویا اللہ کی حفاظت یہیں ختم ہو گئی،مستقبل کے لئے اللہ کوئی انتظام نہ کر سکا بلکہ دجاجلہ دین پر غالب آ گئے۔ جب ایسا نہیں ہے تو لازماً دین قیامت تک محفوظ ہوگا اور یہ آحاد کی حفاظت سے ہی ہوگا۔ (احکام:1/124)
اہلِ حدیث کے نزدیک خبرِ واحد میں جب صدق کے قرائن،روات کی ثقاہت اور اتصالِ سند وغیرہ موجود ہوں تو وہ مفید علم ہوگا۔(تلویح:304)
نیز اعمال کی طرح عقائد کا استنباط بھی ان سے درست ہوگا۔(کشف الأسرار :2/691)
وجدان اور شعور*
علم اور یقین کا مسئلہ بہت حد تک وجدانی ہے۔ اس معاملہ صرف تعداد ہی نہیں،رجال کے اوصاف بھی مؤثر ہوتے ہیں۔ائمہ حدیث اس وجدانی شعور کو اچھی طرح جانتے تھے اسی لیے لکھا ہے:”اخبارِ آحاد کبھی ظنی ہوتی ہیں،کبھی علم و یقین کے مترادف اور کبھی اوہام اور فاسد خیالات۔(ابن تیمیہ بحوالۂ صواعق:2/374)
تلقی بالقبول*
امت کے قبول اور عمل سے بھی حدیث یقین کے مقام پر پہنچتی ہے۔مثلا حدیث”انما الاعمال بالنیات” وغیرہ، اور ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ان سے متواتر ہی کی طرح یقین حاصل ہوتا ہے۔ سلف میں اس کے متعلق کوئی نزاع نہ تھا۔ (صواعق:2/373)
نیز بخاری اور مسلم کی احادیث کی صحت پر امت متفق ہے اور انہیں تلقی بالقبول کا مقام حاصل ہے۔(ابن صلاح:12)
اس اختلاف کا پسِ منظر*
انسان ماحول کا غلام ہوتا ہے،معتزلہ اور دیگر بدعتی گروہوں کا تعلق عموماً شاہی درباروں سے رہا جہاں مناظروں میں بادشاہ کے نزدیک اعزاز حاصل کرنے کے لیے فرد تو فرد،جماعتیں غلط بیانی کرتی ہیں۔ اس ماحول میں خبرِ واحد پر اعتماد کون اور کیونکر کرے؟
ائمہ حدیث کا ماحول اس سے بالکل مختلف تھا،درباروں سے بے نیاز،بادشاہوں سے تنفر،ہر چیز اللہ کی رضاء اور دین کی خدمت کے لیے۔
رواۃ کی عصمت*
رواۃ نہ معصوم ہیں اور نہ ہی آج تک کسی نے ان کی عصمت کا دعویٰ کیا ہے۔البتہ مجموعی لحاظ سے فنِ حدیث پر عصمت کا ظن غالب ہے۔جیسے اجماعِ امت میں ہر فرد معصوم نہیں لیکن بحیثیتِ مجموعی اجماع میں مجتہدین کو عصمت کا مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ پس حدیث اگر دین ہے تو اس کی حفاظت حفاظ حدیث کی معرفت سے ہی ہوئی ہے،اس لیے مجموعی حفاظت اور اجتماعی عصمت سے ان کو یقیناً حصہ ملا ہے۔
حدیث کو تنقیدی نگاہ سے پڑھنے کا مطلب*
مولانا فرماتے ہیں کہ ہر حدیث پر تنقید ضروری نہیں،تنقید کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں کوئی ایسی حدیث آ جاتی ہے جو سنتے ہی طبیعت کو کھٹکتی ہے۔جو دین کے مسلمات اور شریعت کے معروفات کے خلاف معلوم ہوتی ہے، جس کو عقلِ عام قبول کرنے سے اولِ وہلہ میں اباء کرتی ہے۔۔۔۔الخ
اس ضمن میں مولانا نے بطورِ مثال تین احادیث کا ذکر فرمایا:”حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین مرتبہ جھوٹ بولنے کی روایت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کی آیات کے ساتھ ”تلك الغرانيق العلىٰ“ کے الفاظ پڑھ دینے کی روایت اور موسیٰ علیہ السلام کے ملک موت کو تھپڑ مارنے کی روایت“
تین احادیث*
(1)
حدیثِ غرانیق باتفاقِ محدثین،اصولِ محدثین کے مطابق ساقط الاعتبار ہے اور جن الفاظ سے ائمہ نے اسے قابل استناد سمجھا ہے وہ نہ طبیعت کو کھٹکتی ہے نہ عقلِ عام اس سے اباء کرتی ہے۔
(2)
معاریضِ ابراہیم علیہ السلام کی روایت اکثر کتبِ حدیث میں مروی ہے۔اس کی سند بھی اصولِ محدثین کے مطابق صحیح ہے۔ مگر تعجب ہے کہ آئمۂ حدیث میں سے کسی نے بھی فنی طور پر اس پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی متقدمین فقہاء کی عقل نے اس سے اباء کیا۔
فقہاء حدیث،ائمہ اور شراحِ حدیث اس امر پر قریباً متفق ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ نہیں بولا۔ قرآن و سنت صراحتاً اس پر شاہد ہیں کہ یہ تعریض اور توریہ کے طور پر فرمایا
اس کا مختصر اور سنجیدہ جواب حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے دیا ہے،لکھتے ہیں:”سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد و ارادہ کو بھی دخل ہے،اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔(1) متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔ (2) اور اگر متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کی مراد ہو۔ یہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔ (3) لیکناگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے۔ اسے ”تعریض“ اور ”توریہ“ کہا جاتا یے۔ یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے کذب سے تعبیر کیا۔حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا وہ درحقیقت صحیح تھا۔(مفتاح دار السعادة:2/39)
موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کا یہ پیغام لے کر آنا کہ “موت کے لیے تیار ہو جاؤ” دراصل بطورِ آزمائش تھا اور آپ کا ملک الموت کو تھپڑ مارنا اور اس کی آنکھ پھوٹ جانا یہ اس لیے ہوا کہ وہ فرشتہ اپنی غیر حقیقی صورت میں تھا پس آپ اسے پہچان نہ سکے اور بلا اجازت اندر داخل ہوتے دیکھ شدتِ غیرتِ طبعی میں تھپڑ مار دیا۔ چونکہ اس شریعت کے بعض احکام پہلی شریعتوں سے موافق ہیں جیسے ہماری شریعت میں بلا اجازت گھر میں داخل ہونے یا بلا اذن مکان میں جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑنے پر کوئی گناہ اور مواخذہ نہیں،بہت ممکن ہے موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بھی یہی حکم ہو اور موسیٰ علیہ السلام نے اس شرعی عمل کی تعمیل میں یہ فعل کیا ہو۔
انبیاء کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں جو عقل عام کی رسائی سے بالاتر ہوتے ہیں بلکہ خواص کی عقلیں بھی حیران رہ جاتی ہیں لہٰذا اگر طبیعت مطمئن ہو سکے تو شارع کے الفاظ میں ہی اسے قبول فرمایے،ورنہ جو جی میں آئے فیصلہ کیجئے۔ (تعلیق المسند الامام احمد:14/66,67،طبع مصر)
آحاد کے متعلق اختلاف اور خرابی کا پہلا دور*
یوں تو زمانہ نبوت سے ہی ایسا عنصر موجود تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفصیلی ہدایات سے گھبراتا تھا مگر دانشمندوں کی وجہ سے اس ذہن کو ابھرنے کی توفیق نہ مل سکی۔لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کو اجتماعی طور پر شرارت کرنے کا موقع ملا۔
اس ذہن کی تنظیم*
لیکن دوسری صدی میں معتزلہ کی وجہ سے اس ذہن نے ایک اصولی شکل اختیار کر لی،مگر خوارج اور یہ حضرات کھل کر حدیث کا انکار نہ کر سکے۔
آحاد پر اشتباہ دوسری صدی کے شروع میں*
ابن حزم فرماتے ہیں:”تمام مسلمان،اگر راوی ثقہ ہو تو خبرِ واحد قبول کرتے تھے۔۔۔۔ہاں پہلی صدی کے بعد معتزلہ متکلمین کی جماعت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس اجماعِ امت کی مخالفت کی“۔(الاحکام:114)
دوسرا دور*
معتزلہ کے اس حملے سے صرف اہلِ حدیث اور حنابلہ محفوظ تھے۔احناف،موالک،شوافع اور شیعہ میں سے بعض اہلِ علم اعتزال سے متاثر ہو گئے تھے۔اس دور میں انکارِ آحاد کا ایک چور دروازہ عیسیٰ بن ابان نے یہ کھولا کہ قبول حدیث کے لیے فقہ راوی کی شرط لگا کر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو غیر فقیہ قرار دے دیا۔(اصول بزدوی:3/699)
تیسرا دور*
متاخرینِ احناف میں عیسیٰ بن ابان کے اس مسلک پر عمل ہونے لگا اور عقائد کے ساتھ ساتھ فقہیات میں بھی اعتزال کا اثر آ گیا۔(حجۃ اللہ :1/160)
چوتھا دور*
انگریز کی آمد کے بعد جب ملک میں دینی تعلیم عصری تعلیم سے الگ ہو گئی،عیسائی مبلغ ہندوستان میں چھا گئے تو انگریزی تعلیم اور اس کے حمایتی ان سے بہت حد تک متاثر ہوئے،ان میں سے بعض لوگ واقعی مخلص تھے پر ذہن چونکہ متاثر تھا اس لیے قلم لڑکھڑا گیا۔ ”امھات المؤمنین“،”خطباتِ احمدیہ“،”تفسیر احمدی“:(سید احمد خان) میں یہ چیز نمایاں ہے۔
درایت اور تفقہ*
مولانا شبلی رحمہ اللہ نے ”سیرۃ النعمان“ میں حدیث کا انکار نہیں فرمایا لیکن عقل کو ”درایت“ اور ”تفقہ“ کے نام سے اس قدر اہمیت دی جس سے حدیث اور ائمہ حدیث کے مسلک کو انکار کے قریب قریب نقصان پہنچا۔انہوں نے درایت کا مفہوم ایسا عام بیان فرمایا جس سے احادیث کا قتلِ عام ہو سکتا ہے،لکھتے ہیں:”درایت کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعتِ انسانی کے اقتضاء،زمانہ کی خصوصیات، منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائن عقلی کے ساتھ کیا نسبت رکھتا ہے۔انتھیٰ
اقتضائے طبیعت کی حد؟ اس اقتضاء کا معیار؟عقلی قرائن کی تعیین؟ کون کرے؟ کیسے کرے؟ ۔حالانکہ درایتِ حدیث میں حدیث کے مطلب اور مراد سے عربی قواعد اور شرعی ضوابط اور احوال نبوت کے مطابق بحث کی جاتی ہے۔ (امجد العلوم:2/436)
مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی*
ان کا سکولِ فکر مولانا شبلی اور سر سید کے سکولِ فکر سے ملتا جلتا ہے،یہ حضرات بھی تفقہ اور درایت کے غائبانہ عاشق ہیں،مگر یہ ظاہر نہیں فرماتے کہ ان کے یہاں درایت کا کیا مفہوم ہے۔
خدمات اور کارنامے*
کارنامے اور خدمات کی نوعیت ہر پانچ دس سال بعد بدلتی رہتی ہے۔لہذا اگر یہ حدیث ہر تنقید کا معیار قرار دیے جائیں اور انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ انکارِ حدیث کا پیش خیمہ ہوگا۔ نہ ہر درایت سے فنِ حدیث میں مہارت حاصل ہوتی ہے نہ ہر کارنامے اور خدمت سے انسان رسول کا مزاج شناس بن سکتا ہے۔ اس کے لیے وہی حضرات موزوں ہو سکتے ہیں جن کے روز و شب کا مشغلہ حدیث ہے۔
مزاج شناسی اور جوت*
مولانا مودودی نے اصولِ حدیث کو ظنی اور پھر ذوقی کہہ کر اس قدر بے اصول کر دیا کہ ہر منچلا زبان درازی کر سکے۔آپ کی یہ ساری کوششیں اس لیے تھیں کہ آپ ظن سے محفوظ رہ سکیں،لیکن ابھی آپ جہاں ہیں وہاں تو ظن ہی ظن ہے۔ درایت ظنی،قیاسِ ظنی،علتِ ظنی،اس کا طرد و عکس ظنی،مزاج شناسی ظنِ محض اور ہیرے کی جوت ظنی۔یعنی باقاعدہ ظن سے بھاگ کر آپ ذوقی اور بے قاعدہ ظن کے زیرِ سایہ آ گئے۔
احادیث میں یقین اور ظن*
تواتر سے دوسرے مرتبہ پر جو علم حاصل ہوتا ہے اسے اصطلاحاً ”ظن“ کہا جاتا ہے۔ظن زندگی کے تمام شعبوں میں پایا جاتا ہے،دنیا کے کاروبار اور ان کے نتائج ظنی ہیں،لغت ظنی ہے،الفاظ کی دلالت ظنی ہے،جس ظن پر پوری زندگی کا انحصار ہے اسے نہ شرع نظر انداز کر سکتی ہے اور نہ ہی عرف اور رواج۔ قرآن مجید نے ظن کو مستند سمجھا اور اس پر احکام مرتب کیے۔
فن حدیث اور عقل*
یہ بھی صحیح نہیں کہ احادیث کی تنقید میں درایت کو اہمیت نہیں دی گئی،یا محدثین کا نقطۂ نظر بس اخباری تھا فقہی نہ تھا۔ بلکہ جہاں تک عقل اور درایت کا مقام ہے اس کا پورا پورا احترام فرمایا گیا یے۔اختلاف کی وجہ صرف طریقِ فکر میں اختلاف ہے۔جیسا کہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے:”۔۔۔میں نے صحیح قیاس کو صحیح حدیث کے خلاف نہیں پایا،جس طرح عقلِ صحیح،نقلِ صحیح کے کبھی خلاف نہیں ہوتی۔پس جب بھی دونوں میں تعارض ہو تو ایک کا ضعیف ہونا لازمی امر ہے(اعلام الموقعین:ص2،ج4)
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قیاس اور عقل ایک چیز نہیں ہے۔قیاس بھی عقل کے خلاف ہو سکتا یے،اس لیے اصولِ فقہ کے قواعد کو عقلی اصول سمجھنا قطعاً غلط ہے۔
اصل نزاع*
بحث اس میں نہیں کہ فہم اور تنقید حدیث میں محدثین کے نزدیک عقل اور درایت کو دخل ہے یا نہیں بلکہ بحث اس میں ہے کہ کیا ہر مدعی عقل کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ کتاب و سنت کو اپنی ناقص عقل پر پرکھنا شروع کر دے اور جو حکم اس معیار پر پورا نہ اتر سکے اس کا انکار کر دیا جائے۔ آیا عقل و درایت کو احادیث اور سنت کے اس قتلِ عام کی اجازت ہونی چاہیے؟
عقائد و افکارِ مودودی
از قلم : مولانا محمد داؤد راز
اسلام میں عبادت کا تصور*
آپ فرماتے ہیں:”انسان خواہ خدا کا قائل ہو یا منکرِ خدا کو سجدہ کرتا ہو یا پتھر کو،خدا کی پوجا کرتا ہو یا غیر کی،چاہے وہ اپنے اختیار سے کسی غیر کی پوجا کر رہا ہو،وہ خدا ہی کی عبادت ہے۔(تفہیمات:43)
فرشتوں کے متعلق*
اس حقیقت پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں کہ وجود ملائکہ پر ایمان و یقین ایمانیات کا ایک رکنِ اعظم ہے۔ فرشتوں کے متعلق مولانا کہتے ہیں:”اسلامی اصطلاح میں جس کو فرشتہ کہتے ہیں وہ تقریباً وہی چیز ہے جس کو ہندوستان و یونان وغیرہ ممالک کے مشرکین نے دیوی دیوتا قرار دیا یے۔(تجدید و احیائے دین:10)
اس خیال باطل کے مطابق فرشتے مذکر و مؤنث ہر دو قسم کے ہیں کیونکہ وہ دیوی اور دیوتا ہیں۔
مہدی موعود کے بارے میں*
لکھتے ہیں:”وہ بالکل جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا۔۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ اس کی جدتوں کے خلاف مولوی و صوفی صاحبان ہی پہلے سورش برپا کریں گے۔۔۔شاید اسے خود بھی مہدیِ موعود ہونے کی خبر نہ ہوگی اور اس کی موت کے بعد اس کے کارناموں سے دنیا کو معلوم ہوگا کہ یہی خلافت کو منھاج النبوت ہر قائم کرنے والا تھا۔مہدویت دعویٰ کرنے کی چیز نہیں کر کے دکھانے کی چیز ہے ۔۔۔۔الخ(تجدید و احیائے دین:31,33)
مودودی صاحب نے یہ بھی خوب فرمایا کہ مہدی موعود دنیا میں تشریف فرما ہوں گے مگر ان کو خود بھی خبر نہ ہوگی کہ میں ہی مہدی موعود ہوں اور نہ لوگوں کو اطلاع ہو سکے گی ہاں ان کی وفات کے بعد لوگ جان لیں گے کہ یہی مہدی موعود تھا۔ اب ایک طرف آپ مہدی موعود کے متعلق احادیث واردہ کو رکھ لیجئے اور ایک طرف مولانا کے پیش کردہ تعارف کو۔ آسمان و زمین جتنا فرق نظر آئے گا۔
دجال کے بارے میں احادیثِ واردہ کی تکذیب*
قربِ قیامت دجال کے آنے کا عقیدہ امت مسلمہ کا مسلّمہ عقیدہ ہے۔مگر بڑے دھڑلے سے آپ فرماتے ہیں:”یہ کانا دجال وغیرہ افسانے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔۔۔الخ (ترجمان القرآن رمضان شوال سنہ1364)
افسانہ وہ ہوتا ہے جو غیر محقق چیز لوگوں کی زبانوں پر گشت کرنے لگ جائے،حالانکہ بخاری و مسلم وغیرہ کتب احادیث میں 25 مرتبہ یہ احادیث آئی ہیں۔یعنی وہ بھی افسانے ہی ہیں۔مزید جرآت دیکھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:”ان امور کے متعلق حضور سے احادیث میں جو منقول ہے وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں جس کے بارے میں آپ خود شک میں تھے۔(ترجمان القرآن فروری سنہ1946)
یعنی اب تعلیمات اسلام کے بارے میں ارشادات حضور جو کسی کے مزاج کے خلاف ہوں ان سب کو ”آپ کے قیاسات“ کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے۔
حدیثِ مجدد کی تکذیب*
ارشاد ہوتا ہے:”تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔مجدد کامل کا مقام اب تک خالی ہے۔(تجدید و احیائے دین:31،طبع چہارم)
جوازِ متعہ*
اہلِ سنت والجماعت کے یہاں متعہ قطعاً حرام ہے،مگر مودودی صاحب نے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دے ڈالا،لکھتے ہیں:”فرض کیجیے کہ ایک جہاز سمندر میں ٹوٹ جاتا ہے اور ایک مرد و عورت کسی تختے پر بہتے ہوئے ایک ایسے سنسان جزیرہ پر جا پہنچتے ہیں جہاں کوئی آبادی موجود نہ ہو،وہ ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہیں اور شرعی شرائط کے مطابق ان کے درمیان نکاح بھی ممکن نہیں،ایسی حالت میں ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ باہم خود ہی ایجاب و قبول کر کے اس وقت تک کے لیے عارضی نکاح کر لیں جب تک کہ وہ آبادی میں نہ پہنچ جائیں۔۔۔متعہ اسی اضطراری حالتوں کے لیے ہے۔(ترجمان القرآن بابتہ ماہ اگست:379)
دیکھا آپ نے مولانا مودودی کو متعہ کا جواز ثابت کرنے کے لیے کتنی دور کا چکر لگانا پڑا ، حالانکہ یہ فقط افتراضی مثال ہے،خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں۔
سنت نبوی کے متعلق*
ارشاد ہوتا ہے:”میں اسوہ اور سنت اور بدعت وغیرہ ان اصطلاحات کو غلط بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں،جو بالعموم آپ حضرات کے ہاں رائج ہیں“۔(ترجمان:مئی،جون/سنہ45ء)
انکارِ حدیث کے لیے چور دروازوں کی تلاش*
محدثین کی تعریف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:”وہ حضرات(محدثین) ایک دوسرے ہر چوٹیں کرتے تھے،ایک دوسرے کو لاعلم،کذاب اور دجال الدجاجلہ تک کہہ ڈالتے تھے،پھر ان کی بیان کردہ حدیث میں کون سے چیز ایسی ہے جس میں غلطی کا احتمال نہ ہو“۔(تفہیمات:294)
ایک بھی حدیث ایسی نہیں جس پر یقین کیا جا سکے*
ارشادِ گرامی ہے:”احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہونچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ محض گمانِ صحت ہے نہ کہ علم الیقین“۔(ترجمان القرآن،ربیع الاول،1365ھ)اس دروازے سے کوئی محقق قرآن کا بھی تو انکار کر سکتا ہے کیونکہ وہ بھی انسانوں کے ذریعے ہی ہم تک پہونچا ، پھر آپ اسے کیسے تسلی بخش جواب دیں گے؟
مسٹر پرویز کیا فرماتے ہیں؟*
کہتے ہیں (جس کا خلاصہ یہ ہے) مودودی صاحب بھی تو میری ہی طرح منکر حدیث ہیں پھر مجھ ہی کو کیوں برا بھلا کہا جاتا ہے؟(طلوعِ اسلام کراچی،2/اپریل،1955ء) *حضرت امام بخاری اور آپ کی ”الجامع الصحیح“ ہر حملے*آپ فرماتے ہیں:”کوئی شریف آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حدیث کا جو مجموعہ ہم تک پہنچا ہے وہ قطعی طور پر صحیح ہے۔مثلا ”بخاری“ جس کے بارے میں ”أصح الکتب بعد کتاب اللہ“ کہا جاتا یے،حدیث میں کوئی بڑے سے بڑا غلو کرنے والا بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں جو چھ سات ہزار احادیث درج ہیں وہ ساری کی ساری صحیح ہیں“۔
جماعتِ اسلامی کے دین کا خلاصہ
از: صوفی نذیر احمد کاشمیری
اسلام*
اسلام دیگر مذاہب کی طرح استعارات و کنایات اور اشارات و رموز میں چھپا ہوا مذہب نہیں جو ہر زمانے میں ماحول کے مطابق بدلا جاتا رہے،ہاں کانٹ چھانٹ کر کے اسے اس کے غیر متبدل اور ابدی اصولوں کے مطابق کرتے رہنا الگ بات ہے بلکہ وہ تو تجدید دین کا تسلسل ہے۔
اجتہاد کی ضرورت اور اس کی حدود*
یہ دنیائے تغیر و انقلاب ہے،لہذا انسانی زندگی کے جس پہلو کا دنیائے تغیر و انقلاب سے تعلق ہے اس پہلو کے متعلق نت نئے سوالات کا آنا ایک طبعی حقیقت ہے مگر اس کی حد فروع تک ہے، اب اس کے پیشِ نظر ساری غیر متبدل اور اساسات دین و ایمان کی نئی سے نئی تعبیر و تشریح کی جائے جیسا کہ بانی جماعت اسلامی کا انداز فکر ہے،وہ یکسر باطل ہے۔
جماعتِ اسلامی کا دین*
جماعتِ اسلامی کے بانی نے تمام انبیاء کے متفقہ و غیر متبدل دین کو موجودہ دور کے کلی اسٹیٹ کا مترادف بتا کر۔۔۔۔سابقہ امتوں کی طرح سبیل متفرقہ پر ڈالنے کی جو کوشش کی ہے وہ بالکل گمراہی ہے۔پھر اسی دین کو ایک غیر منقسم کلیت قرار دے کر یہ بھی اعلان کر دیا کہ “اس دین کو یا تو کل کا کل قبول کرنا ہوگا یا کل کا کل رد کرنا ہوگا،اس کے علاؤہ کوئی تیسری راہ نہیں بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ دین کی اس مخصوص تعبیر اور صورت (جو مودودی نے بیان کی ہے) کو رد کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسے اللہ پاک مغضوب یہود کی طرح اپنے عذابِ ذلت و رسوائی کے سپرد کر دے گا۔(رودادِ جماعت اسلامی،حصہ دوم،17)
چند سوالات*
توحید خدا،نماز،روزہ اور حج وغیرہ کیا یہ وہ غیر متبدل اصول دین نہیں ہیں جنہیں ہر دور میں امت نے اجماعی حیثیت سے فرائض مانا ہے۔لہذا دین میں نئے شارحین کی نہ تو ضرورت ہے نہ گنجائش،بلکہ ضرورت بس اس بات کی ہے کہ اس دین کے اصول و مبادی کی بداہت و وضاحت میں فرق نہ آنے پائے۔
مرکزی سوال*
اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں وہ کون سا دین یے جسے بانیِ جماعت اسلامی نے از سرِ نو دریافت کر کے اس پر سرِ نو ایمان کو تازہ کیا تھا۔ یہ دعوت تو مبادیاتِ دین سے تمسک کی دعوت ہرگز نہ تھی۔(تجدید و احیائے دین:24)
خاتم الانبیاء کا ایک صاف اعلان*
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لَا يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ) رواه البخاري (7311)یعنی: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔
ان سب حقائق کی روشنی میں کسی شخص کا یہ اعلان کرنا کہ اسے نسلی و روایتی دین میں حق کا کوئی پتہ نہیں چلا،لہذا اس نے خود کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر دین دریافت کیا اور اسی دین کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کا آغاز کیا،سوائے اغوائے ابلیس کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
افادیت*
خارجی افادیت ہر وقت بدلتے رہنے والا ایک سایہ ہے،اسے بنائے دعوت ہرگز نہیں بنایا جا سکتا،بنائے دعوت تو صرف اصولِ دین ہیں۔
منافقانہ روش*
مودودی صاحب لکھتے ہیں:”اسلام کی ساری روح خدائے واحد القہار کی حاکمیت ہے“۔(تجدید و احیائے دین:30)
-یہ اعتقاد قطعاً موجودہ دور کی کلی ریاست کا چربہ ہے جسے دین سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے
جماعت اسلامی کا کردار*
1971 کے پاکستانی الیکشن میں جماعتِ اسلامی کی شکست کے بعد بانی جماعت اسلامی نے اپنی شکست کی یہ توجیہ پیش کی کہ عین الیکشن کے دوران علماء و مشائخ نے جماعت پر یہ اتہام باندھا کہ اگر یہ جماعت کامیاب ہو گئی تو وہابیوں کی طرح قوالی،عرس وغیرہ سارے رسومات ختم کر دے گی اور اور قبوں کو مسمار کر دے گی۔
بانئ جماعتِ اسلامی کا یہ اعلان تھا کہ یہ سب بہتان ہے ، میری جماعت میں اہل سنت اور اہل بدعت دونوں داخل ہیں ، ان پر بس یہ شرط ہے کہ وہ افہام و تفہیم کے ذریعے ایک دوسرے کو قائل کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
-حالانکہ یہ پابندی درحقیقت اہل سنت پر تھی
*بنیادی کجی*
جماعتِ اسلامی کے بانی کی بنیادی کج فکری یہ ہے کہ انہوں نے دین کو کلی ریاست کا مترادف قرار دیکر باقی سب اصولوں کو ذرائع کا اور ذرائعِ بعیدہ کو مقصد کا درجہ دے کر ساری کتابِ دین کے شیرازے کو ادھیڑ کر اس کے اوراق کو منتشر کر دیا۔
ریاست*
ریاست کو کتابِ دین میں اگر کوئی حیثیت حاصل ہے تو وہ صرف اس قدر کہ وہ دینی معاشرتی کے لیے ایک خارجی شہر پناہ اور فصیل ہے۔تاریخ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں انبیاء،صدیقین،شہداء اور صالحین ایسے گزرے جنہیں یہ شہرِ پناہ بنانے کا موقع ہی نہیں آیا اس کے باوجود وہ انسانی معاشرے کے لاریب مصلحین قرار پائے۔لہذا اگر ریاست،دین کا مرکزی جزء ہوتی تو نعوذ باللہ انبیاء کو تاریخ کے ناکام افراد اور جبارین کو تاریخ کا کامیاب گروہ قرار دیا جاتا۔
نرالی منطق*
مودودی صاحب نے اس بات کی طرف اشارہ تک نہیں کیا کہ ایک نبی ایک فلاسفر کی طرح کوئی طے شدہ منصوبہ سامنے نہیں رکھتا بلکہ اللہ پاک بلا اس کی تمنی کے اسے تبلیغ دین کے لیے منتخب کرتا ہے اور اس کے مخاطبین کو حکم ہوتا ہے کہ وہ اس کی شخصی سمع و طاعت کریں،پھر اسی شخصی سمع و اطاعت سے ایک امت وجود میں آتی ہے،لیکن امت کے دوسرے درجے کے مصلحین و مجددین اپنی سمع و طاعت کی دعوت دینے کے ہرگز مجاز نہیں،وہ امت سازی نہیں کر سکتے،وہ زیادہ سے زیادہ تجدیدِ امت کے مجاز ہیں۔جیسا کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کیا۔لیکن مودودی صاحب نے انہیں ایک ناکام انسان بتایا کیونکہ انہوں نے تاسیس امت کے حصے میں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا اعتبار نہیں کیا۔
ان کے دین کی کل حقیقت*
ان کے دین کا اوپری ڈھانچہ اگر جبار و قہار کلی ریاست ہے جسے وہ دین کا مترادف قرار دے چکے ہیں تو ان کے دین کی روح خدائے واحد القہار کی حاکمیت ہے (تجدید و احیائے دین:30)
جماعت اسلامی اور بانیِ جماعتِ اسلامی
از:حکیم اجمل خاں
مولانا مودودی نے یہ جماعت سنہ1941ء میں اپنے چند ساتھیوں کی معیت میں پٹھان کوٹ (پنجاب) انڈیا ، کے ایک گاؤں جمال پور میں قائم کی تھی،جو بعد میں لاہور منتقل ہوئی۔
بانیِ جماعت*
بانیِ جماعتِ اسلامی ”مولانا مودودی صاحب“ اورنگ آباد کے رہنے والے تھے،وہ باضابطہ کسی دینی درسگاہ یا عالم سے نہیں پڑھے مگر اردو،عربی اور فارسی کی صلاحیت رکھتے تھے،اور اردو کے اچھے انشاء پرداز تھے ، اسی لیے انہوں نے متعدد اخبارات میں کام کیا۔
حیدرآباد دکن سے کسی صاحب نے ترجمان القرآن کے نام سے رسالہ جاری کیا تھا مگر وہ چلانے میں ناکام رہے ، پھر یہ رسالہ مودودی صاحب کی ادارت میں نکلنے لگا ، اسمیں مودودی صاحب نے اسلامی مسائل پر جدید انداز سے لکھنا شروع کیا اور بہت جلد ایک اسلامی قلم کار کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔مولانا ترجمان القرآن میں صرف دینی مضامین لکھتے تھے مگر ان دنوں آزادی کی مختلف تحریکیں چل رہی تھیں اس لیے موصوف نے اسلامی سیاست پر بھی لکھنا شروع کیا اور اس طرح موصوف سیاسی میدان میں بھی پہنچ گئے۔
جماعتِ اسلامی کے قیام کا پسِ منظر*
مغل حکومت کے خاتمے،تحریکِ مجاہدین کی ناکامی اور 1857ء کی تباہی کے بعد مسلمانوں میں تعلیمی و تحریکی رجحانات شدت سے ابھرے۔ مولانا مودودی عین اسی وقت کی پیداوار ہیں،مسٹر جناح اور ان کے ساتھیوں نے علیحدہ مسلم قومی حکومت کی مانگ کی،مگر مولانا مودودی نے اسلامی حکومت یا حکومتِ الٰہیہ کا نیا تصور پیش کیا اور اپنے موقف کی تائید میں نہ یہ کہ صرف مضامین لکھے بلکہ ایک کتاب ”مسلمان اور سیاسی کشمکش“ بھی مرتب کی،جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قوم پرستی کی بنیادوں پر حاصل کی گئی حکومت،اسلام کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے*
مودودی صاحب چونکہ اسلام کے فطری تقاضوں اور نبوت کے طریق سے بے نیاز ہو کر حکومت قائم کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے مغربی طرز پر الگ پارٹی چلانے کا انداز اختیار فرمایا اور سیاسی پارٹیوں کی طرح مسلم لیگ کی جگہ جماعتِ اسلامی قائم کی اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے پرکشش اصطلاحات سے اسے سجایا۔
اسلام کی بنیادی اصطلاحات کے معنیٰ و مفہوم میں تبدیلی*
مودودی صاحب نے حکومتِ الٰہیہ کے قیام میں دو باتیں سلف سے بالکل الگ ہٹ کر اختیار کیں:(1) قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات کے معنی و مفہوم کی نئی تشریح۔ (2) مکمل دین کا نعرہ۔چنانچہ انہوں نے ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ نامی کتاب لکھی۔جس میں الٰہ،رب،عبادت اور دین کے مفہوم کو بدل دیا۔
الٰہ کے متعلق لکھتے ہیں:”ان تمام آیات میں اول تا آخر تک ایک ہی مرکزی خیال پایا جاتا ہے،اور وہ یہ کہ الٰہیت اور اقتدار لازم ملزوم ہیں اور اپنی روح اور معنی کے لحاظ سے دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں)
رب کا مطلب*
رب کا مفہوم ہے کہ وہ امر و نھی کا مختار،اقتدار اعلیٰ کا مالک،ہدایت و رہنمائی کا منبع،مملکت کا رئیس اور اجتماع کا مرکز ہے۔(حوالہ مذکور)۔
عبادت کے معنی*
اس کا معنی بندگی اور غلامی کا ہے ، اور اطاعت اس کا لازمی معنیٰ ہے۔ (حوالہ مذکور)
دین کا ترجمہ*
قرآنی زبان میں دین ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزاء سے ہوتی ہے۔
(1)
حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ
(2)
حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم و اطاعت
(3)
-وہ نظامِ فکر و عمل جو اس حاکمیت کے زیرِ اثر ہے
(4)
مکافات جو اس اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت یا سرکشی و بغاوت کے سلسلے میں دی جائے۔
قرآن کبھی لفظِ دین کا اطلاق معنی اول و دوم پر کرتا ہے،کبھی معنی سوم پر،کبھی چہارم پر اور کہیں ”الدین“ کہہ کر پورا النظام اپنے چاروں اجزاء سمیت سمیٹ لیتا ہے۔(حوالہ مذکور)
تخفیفِ حدیث*
ارشاد ہوتا ہے:محدثین صحیح احادیث سے استنباطِ احکام و مسائل میں وہ توازن و اعتدال ملحوظ نہیں رکھ سکتے جو فقہاء نے رکھا ہے۔(تفہیمات)
احادیث کسی معاملے میں حجت نہیں قرار پا سکتیں۔(ترجمان القرآن،فروری/سنہ46ء)
اہانتِ صحابہ و علماءِ کرام*
خلافت و ملوکیت میں لکھتے ہیں:”لیکن ان (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما) کے بعد جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جانشین ہوئے تو رفتہ رفتہ اس پالیسی سے ہٹتے چلے گئے“۔
جنگِ جمل کے بعد قاتلین عثمان کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نظریے کے بدل جانے کو بھی انہوں نے صراحتاً غلط کام قرار دیا ہے۔(خلافت و ملوکیت)
ان کے بقول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ٹھیٹ جاہلیت قدیمہ کے طریق پر عمل کیا۔ (حوالہ مذکور)
امام غزال کی کمزوریوں سے بچ کر ان کا اصلی کام جس شخص نے انجام دیا وہ ابن تیمیہ تھا یہ واقعہ یے کہ وہ بھی کوئی ایسی سیاسی تحریک نہ اٹھا سکے جس سے نظامِ حکومت میں انقلاب برپا ہوتا۔(تجدید و احیائے دین)انتھی
شیخ الاسلام فرماتے ہیں:اسی طرح ہمارا یمان ہے کہ صحابہ میں جو اختلاف ہوا اس کے ذکر سے ہم باز رہیں ، کہ اس بارے میں جو منقول ہے اس میں سے بعض چیزیں بالکل جھوٹ ہیں،اوہ وہ لوگ مجتھد تھے ، پس جن کا اجتھاد صحیح ہوا ان کو دوہرا ثواب اور جن سے اجتہادی غلطی ہوئی،نیک کوشش کا ثواب انہیں بھی ملے گا۔(العقيدة الواسطية)
تشیع پسندی*
مولانا کی تشیع پسندی ان کی کتاب”خلافت و ملوکیت“ نے پوری طرح نمایاں کر دی۔ شیعہ،خوارج اور روافض،باتفاق امت گمراہ فرقے ہیں،مودودی صاحب اس خط میں جو ایرانی انقلاب پر خمینی کو بھیجا گیا تھا لکھتے ہیں: جماعتِ اسلامی پاکستان کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی ۔۔۔۔ نے عالم اسلام کے ممتاز رہنما آیت اللہ روح اللہ الخمینی کو مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ ۔۔۔الخ(روزنامہ جسارت کراچی،13فروری/سنہ79ء)
اتحاد بین المسلمین کا فلسفہ*
اتحاد بین المسلمین سے کون مسلمان انکار کر سکتا ہے لیکن اتحاد بین المسلمین بھی عقائد کی صحت کی بنیاد پر ہی ممکن ہے،کوئی بھی اتحاد مرکزی اصولوں پر چلنے سے ہی ممکن ہے اور وہ مرکزی نقطے اسلام میں توحید اور کتاب و سنت ہیں۔
دینی تعلیم و تربیت سے گریز*
مودودی صاحب نے خود بھی چونکہ کسی دینی درسگاہ کے توسط سے دینی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اس لیے انہیں دینی تعلیم کے فروغ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔بلکہ غیر دینی میں بھی نہیں تھی، مزید یہ کہ وہ اس سے بیزار نظر آتے ہیں ، لکھتے ہیں:”کہیں جبوں اور عماموں میں سیاہ دلی اور گندے اخلاق لپٹے ہوئے ہیں،زبان سے وعظ اور عمل سے بدکاریاں،ظاہر میں خدمت دین اور باطن میں خیانتیں،غداریاں،نفسانی اغراض بندگیاں۔
مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش اول
مصلحت پسندی اور ابن الوقتی*
مولانا دین مقصد اقتدار کا حصول بتاتے ہیں ، مگر پہلے جب سیاسی طور پر قیام پاکستان کی بات چل رہی تھی تو آپ نے اس کو شجر ممنوعہ قرار دیا اور پھر جب ملکی تقسیم کا فیصلہ ہو گیا تو صالح قیادت لانے کے نام پر اپنے ہمنواؤں کو الیکشن میں کھڑا کر دیا۔
ابتداع کی حوصلہ افزائی*
1963 میں سعودی حکومت نے غلافِ کعبہ کی تیاری کے بار میں فیصلہ کیا کہ وہ مولانا کی زیرِ نگرانی تیار کرایا جائے، چناچہ آپ نے عوام کی ضعیف الاعتقادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اعلان کرا دیا کہ اس کی نمائش بذریعہ ٹرین کرائی جائے گی اور ایسا ہوا بھی یہاں تک لوگ فرط جذبات میں ٹرین کو چومتے۔(ایشیا لاہور,28/مارچ،سنہ1963ء)
سب اچھا ہے) کا فارمولہ)*
فقہی مسائل میں مولانا ہمیشہ سے ”سب اچھا ہے“ کے قائل رہے ہیں حتی کہ بعض اصولی معاملات میں بھی ان کی یہی روش رہی ہے ، ایک جگہ فرماتے ہیں:”میں خود حنفی طریقے پر نماز پڑھتا ہوں اگر چہ اہل حدیث،شافعی،مالکی،حنبلی سب کی نماز کو درست سمجھتا یوں“۔(رسائل و مسائل ، حصہ دوم)
اس مختصر جائزے کے بعد ہر متبع کتاب و سنت کے سمجھ میں آ جانا چاہیے کہ مودودی صاحب نے جماعت سازی اور اس کے لیے مصنفات کا ایک عظیم دفتر تو ضرور قائم کیا مگر ان کی دینی تفہیم و تشریح اور طریق کار سلف صالحین سے قطعاً مختلف ہے،اس میں تجدد ،اعتزال،شیعیت اور تخفیف حدیث وغیرہ کے جراثیم بدرجہ اتم موجود ہیں اس لیے اس سے حقیقی اسلامی معاشرہ ہی تشکیل نہیں پا سکتا چہ جائیکہ حکومت الٰہیہ وجود میں آئے۔
اللہ ہم سب کو صحیح فہم عطا فرمائے آمین
टिप्पणियाँ
एक टिप्पणी भेजें
Please do not share any spam links in this blog.